اسلام آباد

احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے گا، مراد سعید

اسلام آباد: وزیرِ مملکت برائے مواصلات مراد سیعد نے مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔ وزارت مملکت برائے مواصلات کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیرِ مملکت کا کہنا تھا کہ نیشنل ہائی ویز اور موٹرویز (این ایچ ایم) کی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔ وزیر مواصلات نے وزارتِ داخلہ سمیت دیگر محکموں سے احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ کرنے والے شر پسند عناصر کی نشاندہی کے لیے معاونت بھی مانگ لی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کے دوران بنائے جانے والی ویڈیوز اور تصاویر کا تفصیلی جائزہ بھی لیا جائے گا۔

وزیرِ مملک برائے مواصلات مراد سعید کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان پُرامن احتجاج کی اجازت دیتا ہے، احتجاجی قیادت کی جانب سے ان شرپسندوں سے مکمل لاتعلقی کا اعلان خوش آئند ہے۔ مراد سعید نے کہا کہ احتجاج کی آڑ میں سرکاری و نجی املاک کے نقصان کی کسی طور اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس 2 روزہ احتجاج کے دوران ملک بھر میں نیشنل ہائی ویز کی قیمتی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، ان املاک کی تعمیر و مرمت پر اربوں کے اخراجات اٹھیں گے۔ وزیرِ مملکت کا کہنا تھا کہ احتجاج کا فائدہ اٹھا کر قومی خزانے کو اربوں کا نقصان دینے والوں کا محاسبہ کریں گے اور شرپسند عناصر کی نشاندہی کرکے انہیں کٹہرے میں لایا جائے گا۔

سول سوسائٹی کے سربراہ عبداللہ ملک نے آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاج کے دوران عوامی املاک کو ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔ عبداللہ ملک کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ٹی ایل پی کے احتجاج سے سرکاری اور عوامی املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ شہریوں کی جان اور مال کا تحفظ حکومت کی اوولین ذمہ داری ہے، اور تحریک لبیک کے احتجاج سے شہریوں کے املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ سول سوسائٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ نہ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی کہ پنجاب حکومت کو شہریوں کے نقصان کے ازالے کا حکم دیا جائے۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے 8 اکتوبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 31 اکتوبر کو سناتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر آسیہ بی بی کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں فوری رہا کیا جائے۔ بعد ازاں عدالت کی جانب سے 57 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیا، جو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے الگ اضافی نوٹ تحریر کیا۔ عدالت کی جانب سے دیے گئے تحریری فیصلے کا آغاز کلمہ شہادت سے کیا گیا جبکہ اس میں قرآنی آیات اور احادیث کا ترجمہ بھی تحریر کیا گیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کیس کا سامنا کرنے والی آسیہ بی بی کی رہائی کے حکم کے بعد کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں مذہبی جماعتوں نے احتجاج شروع کردیا تھا۔ مذہبی جماعتوں کے دھرنوں اور مظاہروں کی وجہ سے ملک کے بیشتر علاقوں میں معمولاتِ زندگی معطل ہوگیا۔ 2 نومبر کو حکومت اور مظاہرہ کرنے والی مذہبی جماعتوں کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں جاری احتجاج ختم ہوگیا اور معمولاتِ زندگی بھی معمول پر آگئے، جبکہ مذہبی جماعتوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر کردی گئی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close