احتسا ب عدالت میں نیب پراسیکیوٹر اور نوازشریف کے وکلا کے درمیان لڑائی ہوگئی
احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نیب کو نئی دستاویزات پیش کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔دلائل کے دوران خواجہ حارث نے نیب کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یو کے سنٹرل اتھارٹی کے ساتھ خط و کتابت نیب کے ظاہر شاہ نے کی تھی اور وہ عدالت میں گواہ کے طور پر پیش ہو چکے ہیں۔خواجہ حارث نے سوال اٹھایا کہ ظاہر شاہ کی گواہی کے ساتھ یہ دستاویزات کیوں پیش نہ کی گئیں۔
تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے نئی دستاویزات پیش کرنے سے متعلق درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے نیب کی درخواست منظور کرلی۔فاضل جج نے نیب کو نئی دستاویزات پیش کرنے کی اجازت دی، اس موقع پر نواز شریف کے وکلاءاور نیب پراسیکوٹر کے مابین تلخ کلامی اور جھگڑا بھی ہوا۔
نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ میڈیا سے معلوم ہوا کہ ان کے موکل سے پوچھا جانے والا سوالنامہ نیب کے پاس موجود ہے، یہ ثابت کریں کہ اگر خبر غلط ہے تو میں الفاظ واپس لوں گا، یہ وہ پراسیکوٹر ہیں جو میڈیا پر بات کرتے ہیں گالیاں دیتے ہیں۔اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا ویڈیو سے ثابت کریں میں نے کون سے گالی دی ہے؟
خواجہ حارث نے کہا واجد ضیاءآدھا آدھا گھنٹہ ریکارڈ دیکھ کر جواب لکھواتے رہے ہم نے اعتراض نہیں کیا، ہماری باری پر نیب کو پیٹ میں درد ہوجاتا ہے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا آپ ذاتی حملے کررہے ہیں، ہم قانون پر عمل کریں گے، فاضل جج نے مداخلت کرتے ہوئے کہا یہ لڑائی والی بات نہیں اب ختم کریں۔
خواجہ حارث نے کہا مستند ذرائع کے مطابق سوالنامہ پراسیکیوشن کو دیا جا چکا ہے، نیب کیسز میں پریکٹس رہی ہے کہ ملزم کو سوالنامہ دیا جاتا ہے، پیشگی سوالنامے میں سوالات کے علاوہ بھی عدالت جو پوچھنا چاہے پوچھ سکتی ہے۔جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا 342 کے بیان کا مقصد ہوتا ہے، عدالت نے ملزم کے بیان سے نتیجہ اخذ کرنا ہوتا ہے، اگر پہلے سوالنامہ دیا جائے تو 342 کے بیان کا مقصد ختم ہو جاتا ہے، اس طرح تو ہم اپنے گواہوں کو بھی تیاری کرا کے لے آتے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا ملزم کو پیشگی سوالنامہ دینے پر ہمارے بڑے سنجیدہ اعتراضات ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا پھر ہمارا بھی بڑا سنجیدہ اعتراض ہے۔جج ارشد ملک نے اس موقع پر کہا آج اس معاملے کو حل کر لیتے ہیں، لمبا ہی ہوتا جا رہا ہے، تفتیشی افسر کا بیان مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوشن نے شواہد مکمل کرنے میں 20 دن لگائے۔خواجہ حارث کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کے دس والیم ہیں اوپر سے 8 والیم عبوری اور ضمنی ریفرنسز کے بھی ہیں۔