’کیا وہ لوگ معافی کے قابل ہیں جنہوں نے اس قوم کو گندا پانی پلایا؟‘
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے زیر زمین پانی نکال کر فروخت کرنے والی 11 کمپنیوں کے مالکان کو کل (منگل) کی صبح عدالت میں طلب کرلیا۔ ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ لوگ کل پیش نہ ہوئے تو ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈلوادیے جائیں گے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے زیر زمین پانی نکال کر فروخت کرنے کے خلاف لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کی۔
ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ادارہ برائے تحفظ ماحولیات ( ای پی اے) فرزانہ الطاف شاہ اور ماہر ماحولیات ڈاکٹر محمد احسن صدیقی نے پانی سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں بتایا گیا کہ لاہور اور شیخوپورہ سمیت بڑے شہروں میں 11 صنعتیں روزانہ کی بنیاد پر 9 کروڑ لیٹر پانی زمین سے نکال رہی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمپنیوں کے پاس پانی کو جانچنے کے لیے سرٹیفائیڈ لیبارٹریز نہیں ہیں نہ ہی ان کے پاس طریقہ موجود ہے جس سے پانی کو جانچا جائے۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ صرف قرشی کمپنی کے پاس سرٹیفائیڈ لیبارٹری ہے جبکہ دیگر کمپنیز کو معلوم ہی نہیں کہ زمین سے نکالے گئے پانی میں کتنے اقسام کی اور کون کونسی معدنیات موجود ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ زمین سے نکالے گئے پانی میں فلورائیڈ اور آرسینک موجود ہے اور ایک ایم بی اے پاس ملازم پلانٹ بھی آپریٹ کرتا اور لیبارٹری کو بھی سنبھالتا ہے۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ کمپنیاں اربوں روپے کما رہی ہیں لیکن ان کے پاس لیبارٹریز تک نہیں ہیں۔
آج سماعت میں کوکا کولا کمپنی کے جنرل مینیجر (جی ایم ) جون ہیلیم سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے رات بھی ملاقات کی ہے اور کمیٹی کے ساتھ مکمل تعاون کرہے ہیں۔
سماعت میں منرل واٹر کمپنی کے وکیل اعتزاز احسن نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ آپ برطانیہ کے دورے کے بعد آ کر یہ کیس سن لیں۔
جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں میں سمجھوتہ کر کے برطانیہ کے دورے پر چلا جاؤں؟ کیا وہ لوگ معافی کے قابل ہیں جنہوں نے اس قوم کو گندا پانی پلایا؟
رپورٹ کے حوالے سے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی عدالت کو بتائیں گے کہ غیر معیاری پانی کی فروخت کرنے پر کیا فوجداری کارروائی بنتی ہے؟
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمپنیز پھر غیر ملکی ماہرین کو بلا کر آپ کی رپورٹ مسترد کروا دیں گی، پاکستان کے ایماندار محب وطن اور قابل ماہرین ان لوگوں کے لیے کوئی اہمیت کے حامل نہیں، ملک کو لوٹنے کا طریقہ بنایا ہوا ہے۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے اعتزاز احسن کی جانب سے مقدمے کی سماعت 30 نومبر تک ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کر دی اور کمپنیوں کے مالکان کو کل صبح طلب کرلیا۔
واضح گزشتہ سماعت میں عدالت عظمیٰ نے تمام صوبوں کو حکم دیا تھا کہ وہ پینے کا پانی بیچنے والی کمپنیوں سے زیر زمین پانی نکالنے پر لیویز کی مد میں ایک روپے فی لیٹر وصول کریں اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کریں۔
اس کے علاوہ عدالت نے سائنسدان ڈاکٹر احسن صدیقی کی سربراہی میں ڈی جی ماحولیات، ڈی جی فوڈ اتھارٹیز پر مشتمل ٹیم بناتے ہوئے ہدایت تھی کی کہ ٹیم پانی کی کمپنیوں سے مل کر ان کے پانی کے معیار کا معائنہ کرے اور 10 روز میں رپورٹ عدالت میں جمع کرائے۔
جس میں اگر کسی کمپنی کا پانی معیار سے کمتر پایا گیا تو اسے اپنا معیار بہتر کرنے کے لیے 3 ماہ کا وقت دیا جائے گا۔