علیمہ خان کے خلاف چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لے لیا
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے وزیراعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کی دبئی میں جائیداد کے معاملے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان نے علیمہ خان کی دبئی میں جائیداد کے معاملے پر ازخود نوٹس سماعت کیلئے مقرر کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ایف آئی اے نے سیاسی تعلقات رکھنے والے 44 افراد کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کروائی جن کی متحدہ عرب امارات میں جائیدادیں ہیں۔ ایف آئی اے کی فہرست منی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے تفتیش کا حصہ ہے جو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی بینچ کے پاس جمع کروائی گئی۔
ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ کہ اس فہرست وزیراعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان بھی دبئی میں بے نامی جائیداد کی مالک ہیں جبکہ سابق وزیر مرحوم مخدوم امین فہیم کی اہلیہ رضوانہ امین کے نام 4،پی ٹی آئی رہنما ممتاز احمد مسلم کے نام 18اور عدنان سمیع خان کی والدہ نورین سمیع خان کے نام 3،سمیت مشرف کے سابق سیکرٹری طارق عزیز کی بیٹیاں بھی دبئی میں جائیداد کی مالک ہیں
اس انکشاف کے بعد وزیراعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان نے دبئی میں موجود اپنی نصف جائیداد ایف بی آر کے حوالے کردی، علیمہ خانم نے بیرون ملک جائیداد کا 25 فیصد بطور ٹیکس اور 25 فیصد بطور جرمانہ ادا کیا۔ علیمہ خان کبھی بھی کسی سرکاری یا حکومتی عہدے پر براجمان نہیں رہیں، تاہم اس کے باجود کسی بھی پاکستانی کو بیرون ملک بنائی گئی جائیداد لازماً ڈکلیئر کرنا ہوتی ہے جبکہ علیمہ خان نے دبئی میں بنائی گئی جائیداد ڈکلیئر نہیں کی جس پر ایف بی آر نے انہیں نوٹس جاری کیا تھا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے آج احتساب عدالت کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) ن لیگ کی جائیداد کی چھان بین کرتی رہتی ہے اسے چاہئے کہ علیمہ خان کی جائیداد کی تحقیقات بھی کرے۔ نوازشریف نے سوال کیا کہ یہ کس کے پیسے سے جائیداد بنائی گئی، علیمہ خان کے ذرائع آمدن نہیں، اربوں کی جائیداد کیسی خرید لی، علیمہ خان کی جائیداد کا منی ٹریل کیا ہے، قوم جاننا چاہتی ہے یہ پیسہ کہاں سے آیا کس نے دیا؟
نواز شریف کا کہنا تھا کہ میں نے گالم گلوچ اور الزامات کی سیاست کبھی نہیں کی لیکن مجبوراً پوچھ رہا ہوں کہ علیمہ خان کی دبئی پراپرٹی کیسے بنائی گئی؟میں ایک کرب میں مبتلا ہوں اور نا چاہتے ہوئے بھی آج ایک لمبے عرصے بعد سیاسی بیان دے رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ این آر او کا تو سوچ بھی نہیں سکتے اگر این آر او لینا ہوتا تو لندن سے پاکستان نہ آتے۔