Featuredاسلام آباد

سپریم کورٹ نے وہ کام کیے جو جمہوری حکومتوں کو کرنے چاہیے تھے: وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ سب کو قانون کے دائرے میں لانے کا کام سپریم کورٹ نے شروع کیا اور وہ کام کیے جو جمہوری حکومتوں کو کرنے چاہیے تھے۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے زیر اہتمام ‘ملک میں بڑھتی آبادی پر توجہ ‘ کے عنوان پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ چیف جسٹس کا شکر گزار ہوں، پہلا وزیراعظم ہوں جسے انہوں نے دعوت دی، شکر ہے کورٹ نمبر ایک میں نہیں بلایا۔

وزیراعظم نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاناما کا فیصلہ اہم تھا آپ نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی، جس معاشرے میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے وہ آگے جاتا ہے، ہمارے ہاں الیکشن ہوتے تھے لیکن قانون کی حکمرانی نہیں آتی تھی، ڈکٹیٹر ڈیموکریٹ بننے اور ڈیموکریٹ ڈکٹیٹر بننے کی کوشش کرتا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے بہترین دور کا آغاز شروع ہوا ہے، ہم مدینہ جیسی ریاست بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے، سپریم کورٹ نے وہ کام کیے جو جمہوری حکومت کو کرنے چاہیے تھے لیکن جمہوری حکومتیں بدقسمتی سے صرف پانچ سال کا سوچتی تھیں تاکہ اگلا الیکشن جیت جائیں جب کہ ڈیم پانچ سال سے زیادہ عرصے میں بنتا ہے، اسی محدود سوچ کی وجہ سے اس مسئلے میں گھرے ہوئے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ کم بچے خوشحال گھرانا بہت اچھی مہم تھی جسے مشرقی پاکستان کے لیے سمجھا جاتا تھا لیکن آج وہ مشرقی پاکستان بنگلا دیش ہم سے آگے نکل گیا کیونکہ ان کی سوچ دور کی تھی۔

عمران خان نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ قانون کی حکمرانی کی کوشش کررہے ہیں جو بہت اچھی چیز ہے، آپ ہر طاقتور کو قانون کے نیچے لاتے ہیں، یہ سب پاناما سے شروع ہوا اس کا کوئی بھی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ برسرِ اقتدار وزیراعظم قانون کے نیچے آسکتا ہے، آج سی ڈی اے میرے نیچے ہے لیکن آج سی ڈی اے بتارہا ہےکہ عمران خان نے یہ غلطی کی، یہ تصور پہلے نہیں تھا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم پر قرضہ چڑھا ہوا ہے، آنے والے دنوں میں اس سے نکل جائیں گے، برے معاشی حالات ہونے کے باوجود سرمایہ کار پاکستان آرہے ہیں۔

عمران خان نے مزید کہا کہ پاکستان میں سول اور کرمنل قانون فرسودہ ہوچکے ہیں، قبضہ گروپ اسی وجہ سے بنے کہ سول مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوتا، ہم نے 6 نئے قوانین تیار کیے ہیں جو اسمبلی میں لارہے ہیں، سول کرمنل پروسیجر کورٹ کا قانون بھی لارہے ہیں جس میں کچھ وقت لگے گا، کوشش کررہے ہیں قانون سازی کے ذریعے اس میں جدت لائیں، ہم نے سودن میں قانون سازی کرلی ہے جس پر خوشی ہے۔

گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے کی وضاحت

اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے گورنر ہاؤس لاہور کی دیواریں گرانے کے حکم کی بھی وضاحت کی اور کہا کہ گورنر ہاؤس کی دیواریں اس لیے توڑنا چاہتا ہوں کہ اندر سے گورنر ہاؤس کا گارڈن نظر آئے، لاہور میں درخت ختم ہوگئے ہیں، یہ سب ماحولیات اور آبادی سے منسلک ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ غلط فیصلوں اور بیماریوں کی وجہ سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے، اب بچوں کو اسکولوں میں فیملی پلاننگ اور درخت سے متعلق پڑھانا چاہیے، پاکستان ساتواں ملک ہے جو گلوبل وارمنگ سب سے زیادہ متاثر ہوگا، شہر جس تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں درخت کم ہوتے جارہے ہیں، آبادی ان علاقوں میں جارہی ہے جہاں رہنا مشکل ہے، لوگوں کے پاس رہنے کی جگہ نہیں یہ سنجیدہ مسئلہ ہے۔

عمران خان نےمزید کہا کہ ہمیں بہت چیزیں ٹھیک کرنی ہیں، آبادی کا مسئلہ تھوڑا پیچھے تھا لیکن اب ہم نے ٹاسک فورس بنادی ہے جس میں سب وزرائے اعلیٰ اس میں شامل ہیں، کسی حکومت نے اس مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی، اس کے لیے حکومت کو ارادہ چاہیے، اس میں علما کا بہت بڑا ہاتھ ہے، بنگلا دیش اور ایران میں آبادی کنٹرول کرنے کی مہم مسجدوں سے کی، ہمیں بھی مساجد کا سہارا لینا پڑے گا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آج اکیسویں صدر کا جدیددور ہے ہم اس مہم میں موبائل فون اور میڈیا کو استعمال کرسکتے ہیں، ٹاک شوز میں اپوزیشن جو میری تعریفیں کرتی ہے اس کی جگہ لوگوں کو آبادی اور ماحولیات کے بارے میں بتائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آبادی میں اضافے سے متعلق جب لوگوں کو شعور دیں گے تو یقین ہے اس پر قابو پالیں گے۔

اس موقع پر وزیراعظم نے چیف جسٹس کو خراج تحسین پیش کیا۔

چیف جسٹس پاکستان کا سمپوزیم سے خطاب

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میں ثاقب نثار نے اپنے خطاب میں کہا کہ آبادی پر کنٹرول کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے جس نے بہت اچھی تجاویز پیش کیں، عدلیہ کے پاس ان تجاویز پر عملدرآمد کا کوئی میکنزم نہیں، اگر کوئی اس پر عملدرآمد کراسکتا ہے تو وہ وزیراعظم ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو کردار ادا کرنا تھا اس کے لیے حصہ ڈال دیا اور ایگزیکٹو کی ذمہ داری ہے، کسی بھی ترقی یافتہ ملک یا معاشرے کے لیے تعلیم، قانون کی بالادستی، ایمانداری اور مخلص حکومت ضروری ہے۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہر کام کرنے کے لیے ٹول ہوتے ہیں، ہمارا کنٹریکٹ لاء 1872 کا قانون ہے، اس ٹول کو لے کر ہم 2018 میں اپلائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم قانون سازی نہیں کرسکتے یہ کام پارلیمنٹ کا ہے اور پارلیمنٹ نے ہمیں ٹول دینے ہیں، اتنا وقت گزر چکا اور پرانے قوانین کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ نہیں کیا گیا، آپ ہمیں ٹولز دے دیں، آج کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا ہمیشہ کہا آئین کے بعد اگر کوئی سپریم ادارہ ہے تو وہ پارلیمنٹ ہے، امید ہے نیک نیتی سے چند سالوں میں خوابوں کی تعبیر پالیں گے۔

کانفرنس سے مذہبی اسکالر مولانا طارق جمیل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بڑھتی آبادی کا مسئلہ علم کی کمی کی وجہ سے ہے، دیہات میں کہا جاتا ہے 5 بیٹے ہوگئے تو مجھے کچھ کمانا نہیں پڑے گا، جتنے بچے پیدا ہوجائیں اتنے مزدور ہوں گے، یہ بچے کے پیدا کرنے کے لیے بہت بڑا ظلم ہے۔

مولانا طارق جمیل نے کہا معاشرتی دباؤ اور غربت بھی آبادی میں اضافے کی وجہ ہے، یہاں بچہ اس لیے پیدا کیا جاتا ہے میری ساس کیا کہے گی، لڑکا کہتا ہے کہ اولاد نہ ہوئی تو دوست کیا کہیں گے، یہ بچے کے لیے بہت بڑا ظلم ہے۔

مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا مدینہ کی ریاست بنانے والا اللہ ہے حکمران کی نیت سے بڑا فرق پڑتا ہے، یہاں مدینہ کی ریاست کا تصور پیش کرنے پر عمران خان کو سلام پیش کرتا ہوں اور وہ پہلے وزیراعظم ہیں جنھوں نے مدینہ کی فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کیا۔

مولانا طارق جمیل نے کہا حکمرانوں کی نیت کے اچھے یا برا ہونے سے ملک پر اثر پڑتاہے، جب بنیادیں بہتر ہوں گی تو ذیلی مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ فلاحی ریاست کی بنیاد عدل، امن اور مضبوط معیشت اور علم ان تینوں کی ماں ہے، فلاحی ریاست کے بنیادی اجزاء عدل، امن اور بہتر معیشت ہے، فلاحی ریاست کا پہلا تصور ابراہیم علیہ السلام نے پیش کیا، امن والی ریاست اس وقت بنتی ہے جب نظام عدل مضبوط ہو۔

مولانا طارق جمیل نے کہا کہ معزز ججز سے ہی سنا کہ ہمارا قانون بہت کمزور ہے اور ایک کیس کا فیصلہ کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں، اس میں بہتری کس طرح لائی جائے اس حوالے سے یہاں بیٹھے ججز بہتر بتا سکتے ہیں۔

مولانا طارق جمیل نے کہا کہ پولیس مضبوط اور سیاسی لوگوں کے تسلط سے آزاد ہونی چاہیے، پولیس پر سیاسی لوگوں کا تسلط ہوگا تو انصاف نہیں ملے گا، تاجر سچ بولیں، صحیح تولیں، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی نہ کریں۔

واضح رہے کہ گذشتہ دنوں ڈیم فند ریزنگ کے لیے دورہ برطانیہ کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے دسمبر سے آبادی پر کنٹرول کے لیے ‘2 بچے ہی اچھے’ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

جسٹس ثاقب نثار نے اس موقع پر کہا تھا کہ 12 یا 13 دسمبر سے وہ مہم شروع کرنے جارہے ہیں، جس کے دوران اس حوالے سے آگاہی پیدا کی جائے گی کہ آبادی کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ‘میں اس کی شروعات اپنے گھر سے کروں گا اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کروں گا’۔

چیف جسٹس نے امید ظاہر کی تھی کہ اس معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اور پاکستان کی بقا کے لیے قوم ان کے ساتھ اس مہم میں بھرپور تعاون کرے گی۔

واضح رہے کہ حالیہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 520 سے زائد ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close