پی اے سی اجلاس: (ن) لیگی دور کے آڈٹ نہیں دیکھوں گا، شہباز شریف
اسلام آباد: چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی شہباز شریف نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے دور کے آڈٹ نہیں دیکھوں گا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔
پی اے سی کمیٹی ممبران نے چوہدری نثار اور خورشید علی شاہ کے دور میں ہونے والے کام کو سراہا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن سعید طارق نے تجویز پیش کی کہ جاری منصوبوں کا جائزہ لیں تو بہتر ہو گا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں مسلم لیگ ن کے دور کے آڈٹ پیراز نہیں دیکھوں گا۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن دور کے پیراز دیکھنے کے لیے علیحدہ کمیٹی بنائیں گے۔
قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے دور کے پیراز ہوں گے تو میں اجلاس کی صدارت نہیں کروں گا، اس حوالے سے ہماری واضح انڈر اسٹینڈنگ ہے۔
شہباز شریف نے تجویز پیش کی کہ ابھی یہ وقت ہے کہ 3 سے 4 سب کمیٹیاں بنا دی جائیں، یہ سب کمیٹیاں صرف مسلم لیگ ن دور کے آڈٹ کیلئے بنائی جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ان میں سے کسی کمیٹی کا حصہ نہیں بنوں گا۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی زیر التواء کام پر اپنا کام شروع کر دے گی، کمیٹی کے احکامات پر بغیر کسی حیل و حجت کے عملدرآمد ہو گا۔
اجلاس کے آغاز پر شہباز شریف نے کہا کہ ‘ہمارا مشن بلا امتیاز احتساب ہوگا، کسی کی طرفداری نہیں کریں گے’۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘پبلک اکاؤنٹس کمیٹی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے، ماضی میں پی اے سی نے اچھی کارکردگی دکھائی’۔
شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہم قانون کے مطابق ٹیم ورک کے ذریعے کام کرنے کی کوشش کریں گے، پی اے سی میڈیا پر خبریں چلوانے کا فورم نہیں’۔
سیکریٹری پی اے سی کی کمیٹی کو ایجنڈے پر بریفنگ
اجلاس کے دوران سیکریٹری پی اے سی نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ نور الامین، حاکم علی زرداری، چوہدری نثار اور سید خورشید شاہ پی اے سی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ‘کمیٹی نے 5 سال میں 355 ارب روپے ریکور کیے’۔
سیکرٹری کمیٹی نے اجلاس کو بتایا کہ ‘اس وقت کمیٹی نے 8 سال کی آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لینا ہے، کمیٹی کے پاس زیرالتواء آڈٹ پیراز کی تعداد 18 ہزار43 ہے، زیرالتواء گرانٹس 941 ہیں جبکہ کمیٹی نے نیب کو 168 اور ایف آئی اے کو 56 کیسز بھیجے’۔
بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ کمیٹی میں رائل گالف کلب، گرینڈ حیات ہوٹل اور نیو ایئرپورٹ سمیت متعدد منصوبوں کو زیر بحث لایا گیا۔
اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن فخر امام نے سوال کیا کہ ‘نیب اور ایف آئی اے کو کیس بھیجنے کا کیا فارمولا ہے؟’
جس پر سیکریٹری نے جواب دیا کہ ‘یہ کمیٹی کی صوابدید ہے’۔
مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رکن شیخ روحیل اصغر نے سوال کیا کہ ‘جو کیسز نیب اور ایف آئی کو بھیجے ان کا نتیجہ کیا نکلا؟’
جس پر چیئرمین کمیٹی شہباز شریف نے کہا کہ ‘اس کا جواب نیب کا نمائندہ دے’۔
تاہم سیکریٹری کمیٹی نے جواب دیا کہ اس وقت نیب 11 مقدمات پر تفتیش اور 17 پر انکوائری کر رہا ہے۔
جس پر شہباز شریف نے کہا کہ ‘بہتر ہوگا اگلے ہفتے نیب تفصیلی بریفنگ دے’۔
جس پر سیکریٹری نے جواب دیا کہ ‘ایسا ہی ہوگا’۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا دوسرا اور تیسرا اجلاس بالترتیب پیر (31 دسمبر) اور منگل (یکم جنوری) کی صبح ہوگا، جس کے دوران آڈیٹر جنرل آف پاکستان کمیٹی کو بریفنگ دیں گے۔
واضح رہے کہ شہباز شریف آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم
اسکینڈل کے سلسلے میں نیب لاہور کی حراست میں ہیں، نیب حکام پروڈکشن آرڈر
جاری ہونے پر قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے انہیں لاہور سے اسلام
آباد لاتے ہیں جبکہ وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کی جانب سے منسٹر انکلیو
میں واقع شہبازشریف کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیا جاتا ہے۔
آج ہونے والے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے لیے بھی گذشتہ روز شہباز شریف کی جانب سے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کی درخواست کی گئی، جسے اسپیکر نے منظور کرتے ہوئے پروڈکشن آرڈر جاری کردیئے۔
واضح
رہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن
میں ڈیڈ لاک تھا اور حکومت نے بطور چیئرمین شہباز شریف کی نامزدگی کو مسترد
کردیا تھا، تاہم بعدازاں 13 دسمبر کو حکومت اور اپوزیشن میں شہباز شریف کو
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے پر اتفاق ہوگیا تھا۔
جس کے بعد 21 دسمبر کو شہباز شریف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہوگئے تھے۔
گذشتہ روز وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے شہباز شریف کو پی اے سی چیئرمین بنانے کے فیصلے کو ‘آئین وقانون کے منافی’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس معاملے پر سپریم کورٹ جانے کا سوچ رہے ہیں۔