اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی غیر قانونی تعمیر کی تحقیقات شروع
اسلام آباد: امریکی سفارتخانے کی عمارت کی تعمیر کیلئے بلڈنگ پلان کی غیر قانونی منظوری دینے کیخلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کیخلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ ایف آئی اے نے سی ڈی اے کو گزشتہ ماہ سفارتخانے کے کیس کے تمام دستاویزات حاصل کرنے کیلئے خطوط لکھے تھے۔ مذکورہ خطوط میں کہا گیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی ہدایت پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے جسے ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن یونٹ کے سپرد کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے سی ڈی اے کو تحقیقات کے آغاز کے بارے میں باضابطہ طور پر خطوط کے ذریعے ہی آگاہ کیا جبکہ امریکی سفارتخانے کی عمارت کی تعمیر کے حوالے سے سی ڈی اے حکام کے پاس موجود ریکارڈ، متعلقہ رپورٹس اور تصدیق نامہ عدم اعتراض (این او سی) طلب کرلیا۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق تحقیقات کے آغاز کے بارے میں تصدیق کرتے ہوئے سی ڈی اے حکام نے کو بتایا کہ ہم ایف آئی اے کو تمام دستاویزات فراہم کر دیں گے۔ انہوں نے اس حوالے سے مزید معلومات فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ حساس نوعیت کا ہے، تاہم اس بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ خیال رہے کہ 2017 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دوران وزیر مملکت برائے کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (سی ڈی اے) ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے سینیٹ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے بتایا تھا کہ امریکی سفارتخانے کی اس 8 منزلہ عمارت کی تعمیر سی ڈی اے کی منظوری سے ہوئی۔ سینیٹر حافظ حمداللہ کی جانب سے جمع کروائے گئے توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق فضل چودھری کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے نے امریکی سفارتخانے کی تعمیر سی ڈی اے کی منظوری کے بغیر نہیں ہوئی۔
انہوں نے سینیٹ کو بتایا تھا کہ سی ڈی اے نے امریکی سفارتخانے کو 8 منزلہ عمارت بنانے کی منظوری دی تھی جبکہ بنگلہ دیشی ہائی کمیشن کو بھی یہی منظوری دی گئی تھی۔ سینیٹر حافظ حمداللہ نے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے بعد توجہ دلاؤ نوٹس سینیٹ میں جمع کروایا تھا۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے وزیرِاعظم کی منظوری کے بغیر امریکی سفارتخانے نے تعمیرات شروع کر دی تھیں، جبکہ سی ڈی اے حکام اسے روکنے میں بھی ناکام رہا تھا۔ سینیٹر حافظ حمداللہ نے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے 2012 میں ایک خط موصول ہوا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ اس عمارت کی چھت پر جاسوسی کیلئے ایک آلہ لگایا جا سکتا ہے جس کی مدد سے حکومتی دفاتر کی نگرانی کی جا سکے گی۔ تاہم طارق فضل چودھری نے سینیٹ کو بتایا کہ دفتر خارجہ اور انٹیلی جنس حکام سے رابطہ کیا گیا تھا جنہوں نے سی ڈی اے کو بتایا تھا کہ امریکی سفارتخانے کی تعمیر میں جاسوسی کے آلات استعمال کرنے کے شواہد نہیں ملے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس جدید دور میں چھتوں پر جاسوسی کیلئے آلات نصب کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب تمام معاملات گوگل میپ کے ذریعے لائیو دیکھے جا سکتے ہیں۔ سینیٹ اجلاس کے بعد ڈان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے کہا کہ انہیں سی ڈے اے نے تحریری طور پر بتایا تھا کہ امریکی سفارتخانے کا بلڈنگ پلان 2012 میں منظور کیا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس منظوری کے بعد ادارے نے وزیراعظم سے اجازت کے لیے بات چیت شروع کر دی تھی، تاہم امریکی حکومت نے پلان کی منظوری کیلئے سی ڈی اے کو تمام دستاویزات دینے کیساتھ ساتھ فیس بھی فراہم کر دی تھی۔ تاہم ایف آئی اے نے اس حوالے سے اب تحقیقات شروع کردی ہیں۔