امداد علی کو سزا دینا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی
بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی اور انھوں نے صدر ممنون حسین سے استعدا کی ہے کہ وہ امداد علی کی سزا پر عمل درآمد روک دیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران فیصلہ سنایا ہے کہ سکریتزوفرنیا یعنی پراگندہ ذہنی ایک مرض نہیں ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ ایک مستقل مرض نہیں ہے چنانچہ اس کی بنیاد پر امداد علی کی سزائے موت روکی نہیں جا سکتی۔
امداد علی کی دفاعی ٹیم کا کہنا تھا کہ اس ذہنی مرض کی وجہ سے ان کے موکل کو پھانسی دینا غیرقانونی ہوگا۔
پچاس سالہ امداد علی نے 21 جنوری 2001 کو بورے والا میں ایک مدرس حافظ عبداللہ کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ 2002 میں انھیں سیشن کورٹ نے سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔ یہ سزا ہائی کورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھی۔ تاہم امداد علی کی اہلیہ صبیحہ بانو کا کہنا ہے کہ امداد قتل سے بہت پہلے ذہنی مریض بن چکا تھا۔
امداد علی کی لواحقین سے سوموار کو وہاڑی ڈسٹرکٹ جیل میں آخری ملاقات بھی کرادی گئی۔اس موقع پر لواحقین نے ڈسٹرکٹ جیل کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
مقامی میڈیا کے مطابق عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہکیونکہ امداد علی کی حالت ادویات اور علاج سے بہتر ہوئی اسی لیے یہ ایک ناقابلِ علاج مرض نہیں اور ذہنی مرض کے زمرے میں نہیں آتا۔
امداد علی کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کو جرم اور سزا کے تصور کی سمجھ ہی نہیں ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ امداد علی خلل خیالی اور اختباطی ڈہن کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کا بھی یہی موقف ہے کہ اگر امداد علی کو سزا دی گئی تو یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔
پاکستان کے مختلف طبی اداروں سے وابستہ 14 بڑے ماہرین نفسیات نے سنیچر کو ایک کھلے خط میں امداد علی کو ذہنی مریض قرار دیتے ہوئے اس کی سزا پر عمل درآمد روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
خط میں کہا گیا تھا کہ امداد علی جیسے ذہنی مریض کو پھاسنی کی سزا طبی اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے۔