پاکستان کی معیشت کو خطرہ لاحق ہے، مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ
اسلام آباد: مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو خطرہ لاحق ہے، ملکی معاشی استحکام کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
اسلام آباد میں اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے مشیر خزانہ نے کہا کہ ہماری کوشش یہ ہے کہ عوام کے سامنے ملکی معیشت کی درست صورتحال اور اس سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو پیش کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک چیز جو نظر آرہی ہے کہ گزشتہ سال جب یہ حکومت بنی تو پاکستان کی معاشی صورتحال کیا تھی ،ہمیں دیکھنا ہے کہ آخر ہم یہاں کیوں کھڑے ہیں ہماری معیشت کی کمزوریاں ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ ملکی معاشی استحکام کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں،ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اہم فیصلےکرنے ہیں۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نےاقدار سنبھالا تو معیشت زبوں حالی کا شکار تھی، ڈالرکمانے کی استعداد گزشتہ 10سال میں صفر رہی۔
انہوں نے کہا کہ طویل عرصے سے اس ملک کے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی گئی اورجو اصلاحات کرنی تھیں وہ نہیں کی گئیں۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ وہی ممالک آگے بڑھتے ہیں جو اپنی چیزیں باہر کے ممالک میں بیچنے کا راز سمجھیں لیکن 10 سال میں صفر فیصد تجارت میں اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: یہ اثاثے ظاہر کرنے کی آخری اسکیم ہے پھر قانون حرکت میں آئے گا، مشیر خزانہ حفیظ شیخ
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ آمدنی سے 2 ہزار 300 ارب روپے زیادہ خرچ کیے گئے جس کا مطلب ہے آپ کو قرض لینا ہوگا، قیمتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کے باعث کرنسی دباؤ کا شکار ہے، گزشتہ 2 سال میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر 18ارب سے کم ہو کر 9ارب ڈالر ہوگئے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ گزشتہ 5 برس میں برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا، ماضی کی حکومتوں نے قرضوں کی دلدل میں پھنسایا 2018 میں قرضہ 31 ارب تک پہنچ گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ برآمدات 20 ارب ڈالر پر منجمد ہیں، گزشتہ حکومت کے دور میں تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر تک بڑھا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ ملک کا امیر طبقہ ٹیکس نہیں دیتا، سابق حکومتوں کے قرضوں کا 2 ہزار 9 سو ارب سود دینا پڑتا ہے، ،ماضی کی حکومتوں نے دیگر ذرائع سے بھی 100 ارب ڈالر کے قرضے لے رکھے تھے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ خسارے میں جانے والے ادارے ملکی معیشت پر 1300 ارب روپے کا بوجھ ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ اس معاملے سے نہیں نمٹتے تو آپ ڈیفالٹ ہوجائیں گے اور اس کا کوئی حل نہیں ہے، وزیر اعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مشکل فیصلے کریں گے تاکہ حالات مستقل بہتری کی طرف جائیں۔
مشیر خزانہ نے کہا کپ سب سے پہلے ہم جو فوری خدشات ہیں ان کو دیکھیں اور جو لگژری اشیا ہم باہر سے خرید رہے ہیں اس پر قابو کریں اور جن امیر لوگوں کو اسے خریدنے کا شوق ہے انہیں اس کے اضافہ پیسے دیں۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ ارادہ یہ تھا کہ ہماری بر آمدکاروں کی مدد کی جائے اور دوسری جانب ڈالر کو موبلائز کیا، اسلامک ڈیولپمنٹ بینک سے ڈیفرڈ پیمنٹ حاصل کی گئیں اور سعودیہ سے بھی تیل کے لیے یہ کام کیا۔
انہوں نے کہا کہ آنے والے وقتوں میں آپ کفایت شعاری کی مہم دیکھیں گے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ ہم ادھر ادھر سے ڈالر لے کر ملک کو خوشحال نہیں بناسکتے اس کے لیے ہمیں سرمایہ کاروں کی توجہ یہاں لانی ہوگی اور اپنی عوام کو باصلاحیت بنانا ہوگا تاکہ وہ دنیا سے مقابلہ کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اداروں کو ایک منظم طریقے سے لوٹا گیا اور ان سفید ہاتھیوں کو چلانے کے لیے عوام کی صحت تعلیم پر خرچ ہونے والا پیسہ ضائع کیا گیا۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے امیر ٹیکس دینا نہیں چاہتے اور ہم اگر ٹیکسز جمع نہیں کرسکتے تو اخراجات بھی پورا نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے 2 سے 3 اقدامات کیے جارہے ہیں جن میں ایمنسٹی اسکیم بھی شامل ہیں اور اس کے نتائج جون 30 تک سامنے آجائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی چیز کی قیمت بڑھتی ہے تو اس کی سب سے زیادہ دشواری حکومت کو ہوتی ہے کیونکہ حکومت ہی عوام کو جوابدہ ہے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ تاہم کئی بار لازم ہوتا ہے ایسا کرنا جیسے اگر باہر کی دنیا میں تیل کی قیمت بڑھ رہی ہے تو حکومت مجبور ہوجاتی ہے۔
ایک سوال کے جواب انہوں نے کہا کہ میں نے صرف حقائق پیش کیے تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ ہمارا چیلنج سخت ہے اور کل کے بجٹ میں پاکستان کے عوام کو بھرپور اعتماد ملے گا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ ہم نے معاشی استحکام کے لیے جتنے قرضے لیے وہ کل بجٹ میں واضح ہوجائیں گے،ہم پر اتنے قرضے ہیں کہ قرض کا سود ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم جمہوری نطام میں رہ رہے ہیں، میں اس سے قبل بھی پارلیمنٹ کا حصہ رہا ہوں، اپوزیشن اور حکومت کا تعلق برقرار ہے اور یہ جمہوریت کے تحفے ہیں جسے آپ کو سہنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے۔
رواں مالی سال اقتصادی ترقی کی شرح 3.29فیصد جبکہ زرعی شعبے کی شرح نمو 0.85 فیصد، صنعتی شعبے کی شرح ترقی 1.4 فیصد اور خدمات کی شرح نمو 4.7 فیصد رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ شبر زیدی کو بہت مشکل سے فیڈرل بیورو آف ریونیو ( ایف بی آر) کا چیئرمین بنوایا گیا کیونکہ وہ قابل انسان ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ شبر زیدی باشعور انسان ہیں اور وہ ایک بڑا عہدہ چھوڑ کر آئے ہیں تو وہ اپنی پوری کوشش کریں گے اور کارکردگی دکھائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ بھی اپنی نوکری چھوڑ کر پاکستان کی خدمت کرنے آئے ہیں ان کو سپورٹ کرنا چاہیے نہ کہ ان پر تنقید کریں۔
مشیر برائے کامرس رزاق داؤد نے کہا کہ ملکی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے،انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومتوں کے صںعتوں کے حوصلہ شکنی اقدامات کو روکا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے صنعتیں بند ہونے سے روک دیں ، چین کے ساتھ آزادانہ تجارت کے نقائص کو ختم کیا گیا۔
مشیر برائے کامرس نے کہا کہ برآمدات بڑھانے کے لیے مارکیٹ ایکسپوژر چاہیے، اگر دیکھا جائے تو بر آمدات میں اضافہ ہوا، ڈالرز میں نہیں لیکن تعداد میں ہوا ہے جس کا مطلب ہماری صنعتیں چل رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے درآمدات میں ساڑھے 4 ارب ڈالر کی بچت کی جو جون تک 5 ارب ڈالر اور رواں برس کے اختتام تک 13 ارب 12 کروڑ ہوجائے گی۔