سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ کو ہر فورم پر چیلنج کروں گا، چوہدری نثار
اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ان کے خلاف جتنی تحریک التوا پیش کردیں وہ ان کا سامنا کریں گے اور سانحہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں صفائی پیش کریں گے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثار نے کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک جج کی رپورٹ میڈیا میں مرچ مصالحوں کے ساتھ پڑھی جب کہ رہی سہی کسر ان لوگوں نے پوری کردی،جن لوگوں کی مجھ سے سیاسی و غیر سیاسی تکلیف تھی۔ میں گناہ گاہ انسان ہوں لیکن جھوٹ نہیں بولتا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کہا گیا کہ کہا گیا کہ وزیر داخلہ نے غلط بیانی کی، رپورٹ میں سرکاری نہیں بلکہ ذاتی الزامات لگائے گئے۔ یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہمارا موقف سامنے آئے بغیر یکطرفہ خبر کیسے سامنے آگئی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ مجھے سیاست میں 35 سال ہوگئے ہیں، اس دوران کئی فیصلے میرے خلاف آئے اور انہیں خندہ پیشانی سے قبول بھی کیا، میں سوچ نہیں سکتا تھا کہ ایسی کوئی بالواسطہ چیز سامنے آئے گی، کسی کو احساس نہیں کہ ملک کی سکیورٹی انتہائی حساس ہے، سکیورٹی پلان اوردہشت گردی کے خلاف جنگ کونقصان پہنچایا جارہا ہے ۔ دہشتگردوں میں سب سےبڑی ضرورت سول ملٹری تعاون کی ہے، 20 ہزار سے زائد انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن ہوئے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ کامیابی کی صورت میں اس کے کئی ذمہ دار نکل آتے ہیں لیکن ناکامی کی صورت میں وزارت داخلہ ، وزیر داخلہ اور حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ جس نے نیشنل ایکشن پلان کو پڑھا ہی نہیں وہ اس پر نکتہ چینی کرنے لگتا ہے۔ پارلیمنٹ میں جتنی مرضی تحریک التوا لے آئیں سامنا کروں گا۔
چوہدری نثار نے مزید کہا کہ 5 مرتبہ نیشنل ایکشن پلان کو پارلیمنٹ میں پیش کرچکا ہوں، کسی نے قومی ایکشن پلان پر کوئی جواب نہیں دیا، نیکٹا جب میرے اختیار میں آیا تو 5 ماہ سےعمارت کا کرایہ بھی نہیں دیا گیا تھا، انہیں سانحہ کوئٹہ کے تحقیقاتی کمیشن کی جانب سے ایک خط ملا جس میں 5 سوال کئے گئے تھے۔ سانحہ کوئٹہ کمیشن کےسوالات میں ایک سوال بھی سانحہ سےمتعلق نہیں تھا، نیشنل ایکشن پلان کوآرڈینیشن پر وہ ناصر جنجوعہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، میں اہل سنت والجماعت کے وفد سے نہیں دفاع پاکستان کونسل سے ملا اور وہ کالعدم نہیں، اس تنظیم میں( ق) لیگ بھی شامل ہے، اس وفد میں مولانا سمیع الحق نے مجھ سے بات کی تھی، وفد میں مولانا احمد لدھیانوی کی شمولیت کا انہیں علم ہی نہیں تھا اور وہ اس پوری ملاقات میں خاموش ہی رہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ فورتھ شیڈول میں شامل شخص کی شہریت منسوخ نہیں کر سکتے، کسی کی شہریت منسوخ کرنے کا اختیاروزارت داخلہ کے پاس نہیں، کتنا ہی بڑا مجرم کیوں نہ ہو اسکی شہریت منسوخ نہیں کرسکتے، حسین حقانی کیا کچھ نہیں کرتے رہے لیکن ان کے پاس پاکستانی شہریت اور پاسپورٹ ہے، جن کے دور حکومت میں جس دن دھماکا نہ ہو وہ خبر ہوتی تھی۔ کراچی ایئرپورٹ پر حملے سے پہلے اس راستے تک کا بتایا گیا تھا کہ وہ کس راستے میں داخل ہوں گے اور وہی ہوا۔
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ میرے لئے وزارت اہم نہیں عزت اہم ہے، عزت کے بغیر عہدے لعنت سے کم نہیں ، میں 35 سال سے سیاست میں ہوں لیکن نا میں نے پیٹرول پمپ بنائے اور نہ عہدوں کی سیاست کی، میں نے کوئی این ایل جی کا کوٹہ نہیں لیا، آف شور کمپنی نہیں بنائی ، فیکٹری نہیں لگائی۔ فوج، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سے متعلق سب بتانے کو تیار ہوں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا تمام ریکارڈ سامنے لاؤں گا، میری ڈاکٹر عاصم یا پیپلز پارٹی سے کوئی دشمنی نہیں، مجھ پر ایان علی اور ڈاکٹرعاصم کے کیس کا الزام مجھ پر لگایا جاتا ہے، جس دن ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے اس دن میں لندن میں تھا ، ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پرڈی جی رینجرز اور اس وقت کے آرمی چیف سے بات کی تھی۔