ماڈل ایان علی کو بیرون ملک جانے کی اجازت
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کی طرف سے ماڈل ایان علی کے بیرون ملک جانے کی اجازت پر نظر ثانی کی درخواست رد کردی ہے۔
وفاقی حکومت نے نظر ثانی کی یہ درخواست سندھ ہائی کورٹ کے 19 جنوری کے اس فیصلے کے بعد دی تھی جس میں انھوں نے حکام کو کہا تھا کہ ایان علی کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالا جائے۔
وفاق کا موقف تھا کہ ایان علی کا نام کسٹمز کے انسپکٹر اعجاز چوہدری کے پچھلے سال قتل ہونے والے مقدمے میں دفعہ 109 کے تحت درج ہے اس لیے جب تک اس مقدمے کا فیصلہ نہیں آتا، ایان علی کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہ دی جائے۔
اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ جب قتل کا مقدمہ اس وقت درج ہوا تھا جب ایان علی پر بیرون ملک امریکی ڈالر لے جانے کا مقدمہ درج ہوا تھا؟ اس پر حکومت کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ قتل کے مقدمے کے درج ہونے کے موقع پر آیان علی جیل میں تھیں۔
اس پر عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مزید استفسار کیا کہ ملک میں کتنے ایسے لوگ ہیں جن کا نام دفعہ 109 کے تحت مقدموں میں درج ہے اور ان کے نام ای سی ایل میں بھی شامل ہیں۔ تاہم نے ڈپٹی اٹارنی جنرل اس بات کا جواب نہ دے سکے۔
عدالت نے وفاق کی نظر ثانی کی درخواست یہ کہ کر رد کر دی کہ انھوں نے ایسے کوئی شواہد پیش نہیں کیے جس سے یہ ثابت ہو کہ ایان علی کا ملک میں رہنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ وہ کسٹمز انسپکٹر اعجاز چوہدری کے قتل کیس میں ملوث ہیں۔
یاد رہے کہ حکمران جماعت اور ان کے وزرا کا موقف یہ تھا کہ ایان علی پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے کام کرتی رہی تھیں اور ان کے لیے پیسے بیرون ملک لے جایا کرتی تھیں تاہم وہ ان الزامات کے شواہد پیش نہ کر سکی۔
ماڈل ایان علی پر اب کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔