اسلام آباد

پٹھان کوٹ فضائی اڈے پرحملے کا مقدمہ گوجرانوالہ میں درج

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے مطابق بھارتی ریاست پنجاب کے شہر پٹھان کوٹ میں حملے کا مقدمہ گوجرانوالہ میں درج کیا گیا ہے۔

جمعے کو محکمہ انسداد دہشت گردی پنجاب کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق محکمہ انسداد دہشت گردی پنجاب نے پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر حملہ کرنے والے مبینہ حملہ آوروں اور ایک کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے ان کے معاون کاروں کے خلاف مقدمہ گوجرانوالہ کے انسداد دہشت گردی تھانے میں درج کیا گیا ہے۔

مقدمہ وفاقی وزارت داخلہ کے ڈپٹی سیکرٹری اعتزازالدین کی مدعیت میں درج کروایا گیا ہے اور اس میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

دو جنوری کو پاکستان کی سرحد سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پٹھان کوٹ میں ہونے والے حملے میں بھارت کے سات فوجی ہلاک ہوئے تھے اور چار دن تک جاری رہنے والے آپریشن کے بعد چھ شدت پسند بھی مارے گئے تھے۔

بھارت کی جانب سے پٹھان کوٹ حملے کا الزام کالعدم جیش محمد اور اس کے سربراہ مولانا مسعود اظہر پر عائد کیا گیا تھا اور مسلسل یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ پاکستان ان عناصر کے خلاف کاروائی کرے۔

مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 324 اور 109 جبکہ انسداد دہشت گردی کی دفعات سات اور 21 شامل کی گئی ہیں۔

بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ مقدمہ درج کیے جانے کے بعد باضابطہ طور پر تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے جبکہ ایک جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم اس کیس کی تحقیقات کرے گی۔

جبکہ مقدمے کی ایف آئی آر میں بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرکی جانب سے دی گئی معلومات کا حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی ہے کہ دوجنوری کو چار مسلح افراد بھارت کی پٹھان کوٹ کے فضائیہ کے اڈے میں داخل ہوئے جس کے بعد ہونے والی فائرنگ میں سات بھارتی فوجی ہلاک ہوئے جبکہ چاروں حملہ آور بھی مارے گئے۔

بھارت کے قومی سلامتی مشیر کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے اور انھوں نے حملے کی منصوبہ بندی بھی پاکستان میں ہی کی تھی اور ان کا تعلق ایک کالعدم تنظیم سے تھا۔پٹھان کوٹ پہنچ کر بھی حملہ آور پاکستان کے موبائل فون نمبروں پر بات چیت کرتے رہے۔ اس لیے درخواست کی جاتی ہے کہ پٹھان کوٹ حملے کا مقدمہ درج کر کے اس کی تحقیات کروائی جائیں تاکہ واقعے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کاروائی کی جاسکے۔

اس حملے کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو حفاظتی تحویل میں لیے جانے اور پھر ان کی افغانستان میں موجودگی کی اطلاعات سامنے آئیں تھیں۔ تاہم وزارت داخلہ کی طرف سے درج کراوئی گئی ایف آئی آر میں جیش محمد کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

جمعے کو پنجاب کے وزیرقانون رانا ثنا اللہ نے لاہور میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’بھارت سے مولانا مسعود اظہر کے خلاف مزید ثبوت مانگے گئے ہیں اور اس معاملے کی باضابطہ تحقیقات شروع کی جارہی ہیں۔ اور اس کے لیے جو ٹیم بنائی جائے گی اسے یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی سے بھی تفتیش کرسکے گی۔‘

’لیکن صرف نیوز کانفرنس میں کسی کا یا مسعود اظہر کا نام لینے سے تو کسی کو شامل تفتیش نہیں کیا جاسکتا۔ اگر بھارت مسعود اظہر یا کسی بھی اور شخص کے خلاف ایسا ثبوت دے گا تو ان لوگوں سے پوچھ گچھ ہوگی۔‘

وزیرقانون کا کہنا ہے کہ ’پہلی تحقیقاتی کمیٹی غیررسمی طور پر کام کررہی تھی۔ اس معاملے کی تحقیقات کا باضابطہ آغاز ہوگا۔ لیکن مقدمے کا اندارج حکومت پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ اس معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے گا۔ اور یہ معلوم کیا جائے گا کہ کون لوگ ہیں جو ملک کو مشکل میں ڈالنا چاہتے ہیں یا وہ پاکستان سے ہیں بھی یا نہیں۔‘

وزیرقانون کا کہنا تھا کہ بھارت کو بھی شکوک و شبہات سے بالاتر ہوکر اس معاملے کو دیکھناچاہیے۔

پٹھان کوٹ حملے کے بعد پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے بھارتی حکومت کے ساتھ رابطے میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس عزم کو دہرایا تھا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے بھارت کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا۔

اور اس کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کی حکومت کو معلومات بھی فراہم کی گئی تھیں جن کے روشنی میں تحقیات کے لیے ایک چھ رکنی اعلی سطح کی کمیٹی بنائی گئی تھی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close