پاکستان میں کسی بھی ایئرلائن کی چیئرپرسن بننے والی پہلی خاتون
اسلام آباد: ہما بتول نے کچھ ایسا ہی کیا اور آج وہ پاکستان میں کسی بھی ایئرلائن کی چیئرپرسن بننے والی پہلی خاتون ہیں
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے حال ہی میں الویر ایئرویز نامی اس نئی ایئرلائن کو لائسنس جاری کیا ہے جو ہما بتول کے مطابق ایک سیاحتی ایئرلائن ہو گی۔
اُس دن کے بارے میں بتایا جب اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ اب اگلا کام ایئرلائن قائم کرنا ہے۔میں اپنے شوہر کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد رہی تھی مگر ہمیں ٹکٹ خریدنے میں خاصی مشکل درپیش تھی۔ بالآخر ٹکٹ مل گیا۔
جہاز میں بیٹھے تو میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ہمیں ایک ایئرلائن بنانی چاہیے۔ بس پھر دو دن بعد ہی ہم نے منصوبہ بندی شروع کر دی۔
ہما بتول کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور وہ پہلے ہی ایک کامیاب کاروباری خاتون تھیں سو بس آئیڈیا آنے کی دیر تھی اور کام شروع!
وہ کہتی ہیں، ’آج دنیا بہت تیز ہے اور کسی کے پاس ضائع کرنے کو وقت ہی نہیں، نہ ہی یہ وقت ہے کہ آپ معاشرے اور لوگوں کی باتوں کو سوچتے رہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے بہت تیز دوڑ لگائی ہے۔ اتنی تیز کہ اب اڑان بھرنے کی تیاری ہے۔‘
ہمابتول نے اپنے کریئر کا آغاز درس و تدریس سے کیا۔ ان کی شادی پنجاب کے ایک مشہور زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ ’شادی کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میرے شوہر کو میری مدد کی ضرورت ہے۔ وہ ادویات کی درآمد کا کام کر رہے تھے مگر بنیادی طور پر تو وہ زمیندار تھے۔ میں نے سوچا مجھے اپنا ہنر ضائع کرنے کے بجائے اپنے شوہر کی مدد کرنی چاہیے۔ ہم نے منصوبہ بنایا کہ ہم ادویات تیار کرنے کی فیکٹری قائم کرتے ہیں۔ میرے شوہر نے اس معاملے پر میرا ساتھ دیا۔‘
اس فیصلے پر بھی اُنھیں ابتدا میں اپنے علاقے اور خاندان میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ’ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جو آپ کی حوصلہ افزائی کریں۔ جب ہم نے ادویات کی فیکٹری کا فیصلہ کیا تو سب یہی کہتے تھے کہ یہ ممکن نہیں ہو گا، اور دو لوگ کیسے یہ کام کریں گے۔
مگر ہم نے ثابت کیا کہ سب کچھ ممکن ہے۔ ہم نے علاقے کے لوگوں کو سب سے پہلے روزگار دیا۔
یہ بھی پڑ ھیں : بیرون ملک پروازوں کی تعداد میں کمی،سول ایوی ایشن اتھارٹی نے نوٹم تاحال جاری نہیں کیا
ہما بتول سے پوچھا کہ ایک خاتون ہونے کی وجہ سے کبھی اُنھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو اس کا جواب اُنھوں نے ملا جلا دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ دفتر میں ہوں یا میٹنگز میں ہوں تو سب اُنھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ’کاروبار میں مقابلہ تو رہتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ میں سمجھتی ہوں کہ مجھے عورت ہونے کی وجہ سے عزت ملی ہے۔‘
اس سوال پر کہ ایک ایئرلائن قائم کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایک ایئرلائن کئی بلاکس سے مل کر بنتی ہے۔ مشکلات بھی آتی ہیں۔ لوگ حوصلہ افزائی نہیں کرتے، اب بھی کئی لوگ کہتے ہیں کہ آپ نہ آئیں اس بزنس میں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک مشکل کام تو ہے مگر مجھے یہ ڈر ہرگز نہیں کہ ہم ناکام ہو جائیں گے۔‘
وہ کہتی ہیں خواتین ہر کام کرسکتی ہیں مگر ضروری ہے کہ ماں باپ اور خاص طور پر خاندان کے مردوں کی جانب سے اُنھیں مدد اور حمایت فراہم کی جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ اُنھیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ’یہ سننے کو ملتا تھا کہ تم نے کیا کیا ہے؟ جو افسوسناک ہے کیونکہ میں نے بہت کچھ کیا ہے۔ لیکن میں آج اپنے شوہر کو کریڈٹ دیتی ہوں جو تسلیم کرتے ہیں کہ میرا اس تمام سفر میں نہایت اہم کردار رہا ہے۔‘