کوئی عدالت یا جرگہ شرعی وراثتی جائیداد کی تقسیم کے قانون کو تبدیل نہیں کر سکتا
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سوات میں جائیداد کی تقسیم سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جرگے کا فیصلہ دین الٰہی سے بڑا نہیں ہو سکتا، جرگے کے فیصلے کے ذریعے دین الٰہی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جائیداد کی تقسیم سے متعلق دستاویزات پر سات سالہ بچے کا انگوٹھے کا نشان لگایا گیا، 7 سالہ بچے کو تو قتل کیس میں پھانسی بھی نہیں ہوسکتی، ایسے دستاویزات کے ذریعے قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، پاکستان میں سچ بولنے کے حالات ہیں سب کو علم ہے۔
دوران سماعت وکیل درخواست گزار سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا دلچسپ مکالمہ ہوا۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عدالت علاقائی زمینی حقائق کو بھی سامنے رکھے۔
یہ بھی پڑ ھیں : نواز شریف کی جائیداد کی نیلامی کا عمل مکمل
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس علاقے کی زمینی حقیقت کی آپ بات کر رہے ہیں وہاں تو عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا، زمینی حقائق دیکھتے دیکھتے فوجی آمروں نے ملک میں مارشل لاء لگا دیے، زمینی حقائق دیکھتے دیکھتے فوجی آمروں نے ججوں سے جبری دستخط کرالیے، پھر کہا جاتا ہے ہم زمینی حقائق دیکھیں،
سعودی عرب میں جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ ایک دن میں ہوتا ہے، پاکستان میں جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ ہوتے ہوتے چالیس سال لگ جاتے ہیں، جائیداد کی تقسیم کا شرعی اصول ساڑھے چودہ سو سال پہلے طے ہو چکا ہے۔
عدالت نے سوات کے حبیب اللہ مرحوم کی جائیداد کو تمام قانونی ورثاء کے مابین شرعی اصول کے تحت تقسیم کرنے کا حکم دیدیا۔ سپریم کورٹ نے جائیداد کی تقسیم سے متعلق نچلی عدالتوں کے تینوں فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔