اسلام آباد

سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی پر حسین نواز کے اعتراضات مسترد کردیئے

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کرنیوالی جے آئی ٹی پر حسین نواز کے اعتراضات مسترد کر دیئے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بنچ نے حسین نواز کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان پر اعتراض کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ گورنر اسٹیٹ بینک کیوں نہیں آئے۔ جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ یہ سعید احمد کیا نیشنل بینک والے ہی ہیں؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سعید احمد کے جواب کی زبان ملاحظہ کریں، وہ کہتے ہیں اگر ضرورت پڑی تو پیش ہوں گا، وقت محدود ہے جو وقت ضائع کرے اس پر احکامات جاری کئے جائیں، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ صدر نیشنل بینک کل ہر صورت جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں، کسی کو سمن کریں تو وہ سوال جواب شروع کر دیتا ہے، جو پیش نہ ہو پہلی صورت میں اس کے قابل ضمانت اور پھر ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کریں۔

جسٹس عظمت سعید نے جے آئی ٹی کے سربراہ سے استفسار کیا کہ آپ نے کسی کو بلایا تھا جو نہیں آیا جس پر واجد ضیا نے بتایا کہ باوجود جے آئی ٹی نوٹس کے حماد بن جاسم اور کاشف محمود قاضی نہیں آئے، واجد ضیاء نے کہا کہ کاشف مسعود کو سیکیورٹی خدشات ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ تحفظات ہیں تو آپ انتظامات کریں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر حماد بن جاسم پیش نہ ہوئے تو ان کے خط کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے ایک تحقیقاتی ٹیم قائم کی ہے، ہم تحقیقات میں ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں، حسین نواز سعودی عرب سے آئے اور انھیں پیش ہونے کا حکم دیا گیا تو وہ فوراً پیش بھی ہو گئے۔ تحقیقات اور گواہوں کے ساتھ رویے میں توازن ہونا چاہیے لیکن طارق شفیع کو 13 گھنٹے بٹھایا گیا، انہیں اپنا بیان حلفی واپس لینے کو کہا گیا۔ تفتیش کے دوران ایک لمبا چوڑا شخص طارق شفیع پر چلاتا رہا۔ جے آئی ٹی کے ممبران غیرجانبدار ہو کر کام کریں، سپریم کورٹ نے بہت سے فیصلوں میں بدنیتی ثابت ہونے پر افسران تبدیل کئے۔

جسٹس اعجاز افضل کا استفسار کیا کہ بتائیں بدنیتی کہاں شامل ہے۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ بلال رسول میاں اظہر کے بھانجے ہیں، ان کی اہلیہ 2013ء میں مسلم لیگ (ق) کی مخصوص نشست پر امیدوار رہیں، بلال رسول کی اہلیہ نے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حق میں پوسٹ شیئر کیں، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ بلال رسول سرکاری ملازم ہیں، ہمیں ان باتوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس بات کے مخالف ہیں کہ کوئی کسی کو ہراساں کرے، ہم چاہتے ہیں کہ جو پیش ہو اس کی عزت کی جائے، ہم نے جے آئی ٹی کو 60 دن میں کام مکمل کرنے کا کہا ہے، ٹیم دن رات کام کر رہی ہے اور کوئی چھٹی بھی نہیں کر رہی اور آپ کمیٹی ارکان پر اعتراض کر رہے ہیں۔ مذکورہ شخص کو تحقیقات کے لیے بلایا گیا تھا چائے پارٹی کے لیے نہیں۔

خواجہ حارث نے طارق شفیع کا بیان حلفی عدالت میں پڑھ کر سنایا تو عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ بیان حلفی درست ہے یا نہیں، آپ ٹیم کے ایک ممبر کو نشانہ بنا رہے ہیں جو اپنا کام کرنا جانتے ہیں۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اس کیس میں ویڈیو آڈیو رکارڈنگ کی جا رہی ہے، میرے موکل کے معاملے میں عدالت اسے دیکھ لے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں کسی کے خلاف بات کی جائے تو اسے جانبدار کہا جاتا ہے، کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر جے آئی ٹی کا کوئی رکن تبدیل نہیں ہوگا، شکوک کی بنیاد پر کسی کو ٹیم سے نہیں نکالا جاسکتا، اگر ایسا کیا تو پھر تحقیقات کے لیے آسمان سے فرشتے بلانے پڑیں گے، جے آئی ٹی کے کسی ممبر کو تبدیل نہیں کر رہے، ہم جے آئی ٹی کو ہدایت دیتے ہیں کہ قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے، جے آئی ٹی پیش ہونے والے افراد کی عزت نفس کا خیال رکھے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close