ایف بی آر اور ایس ای سی پی نے جے آئی ٹی کے الزامات مسترد کردئیے
اسلام آباد: ایف بی آر اور ایس ای سی پی نے پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی جانب سے ریکارڈ تبدیل کرنے اور تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالنے کے الزامات کو مسترد کر دیا۔
ایس ای سی پی نے جے آئی ٹی کی جانب سے اداروں کے ریکارڈ میں تبدیلی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرا دیا ہے۔ ایس ای سی پی کے جواب میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کو تمام دستیاب ریکارڈ بغیر کسی تاخیر کے فراہم کیا گیا، واٹس ایپ کال تنازع ایس ای سی پی چئیر مین پر ڈالنا مایوس کن ہے، یہ ابھی تک معلوم نہیں یہ کال رجسٹرار سپریم کورٹ نے کی یا کسی اور نے تاہم کال کے معاملے کی تحقیقات سے حقیقت کا پتا چل سکتا ہے، ابتدائی طور پر یہ سمجھا گیا کہ یہ کال امریکا سےآئی ہے، بعد میں پتا چلا کہ یہ کال آئی فون سے فیس ٹائم ایپ کے ذریعے کی گئی۔
سپریم کورٹ کو3 نام بھیجے گئے تھے جن میں سےعلی عظیم کا نام شامل نہیں تھا، رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے بعد میں اضافی نام مانگے گئے تو 8 افسران کے نام بھیجے گئے، ان 8 ناموں میں علی عظیم اکرام کا نام شامل تھا، علی عظیم اکرام کی جے آئی ٹی رکن کے طور پر نامزدگی کو بدنیتی قرار دینا درست نہیں۔ 9 جون کو شام 7 بجے 45 کمپنیوں کا ریکارڈ مانگا گیا، 11 اور 12 جون کو ہفتہ وار تعطیلات میں ریکارڈ حاصل کر کے 13 جون کو دیا گیا لہذا ایس ای سی پی پر عدم تعاون کے الزامات غلط ہیں۔
ایف بی آر حکام نے بھی سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں کہا ہے کہ سینئر کمشنر کی سطح کا افسر جے آئی ٹی کو ریکارڈ مہیا کرتا رہا، سینئرکمشنرکی سطح کا افسر جے آئی ٹی کو جواب دینے کیلیے موجود رہتا تھا، پرانا ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے ایف بی آر نے فیلڈ افسروں کو خطوط لکھے، فیلڈ افسروں کو ریکارڈ تلاش کرنے کی ذمے داری دی جو پوری ہوئی۔