گاؤں کے مردوں اور بچوں کو مساجد میں اکھٹا کرکے بھارتی فوجی ہمارے ساتھ یہ شرمناک کام کرتے، کشمیری دوشیزہ کی کتھا
سری نگر: کشمیر میں بھارتی مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ، قومی اور بین الاقوامی میڈیا اس حوالے سے مسلسل خبریں نشر کرتا ہے۔ اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادار ے بی بی سی نے ایک تازہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق کشمیر میں 1991ء میں تحریک آزادی عروج پر تھی جبکہ بھارتی فوج بھی ظلم کے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے۔ اس سلسلے میں جگہ جگہ کارڈن اینڈ سرچ آپریشن ہوا کرتے تھے، جو ویسے اب تک ختم نہیں ہوئے۔ انھیں عام زبان میں ‘کریک ڈاون’ کہا جاتا ہے۔ کریک ڈاﺅن کے دوران ایک علاقے کو فوج گھیرے میں لے لیتی اور اس کے بعد علاقے کے تمام مردوں کو گھروں سے نکال کر کسی ایک جگہ پر اکٹھا کیا جاتا اور اس کے بعد گھروں کی، جن میں صرف عورتیں اور بچے ہوتے ہیں، تلاشی لی جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ مردوں کی شناختی پریڈ ہوتی تھی جبکہ گھر میں موجود خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ایک کشمیری خاتون نے اپنی درد بھری داستان بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ 23 فروری 1991 مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے چھوٹے سے گاؤں کنن میں دن بھر کی مصروفیات اور گہما گہمی کے بعد ہم رات کو سونے کی تیاری کر رہی تھیں، کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی ہمیں انداز ہوگیا تھا کہ یہ کریک ڈاﺅن ہے۔ بھارتی فوج نے مردوں کو باہر نکال دیا۔ کچھ نے ہمارے سامنے شراب پی۔ میری دو سال کی بچی میری گود میں تھی۔ ہاتھا پائی میں وہ کھڑکی سے باہر گر گئی اور وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئی۔ تین فوجیوں نے مجھے پکڑ لیا، میرا پھیرن، میری قمیض پھاڑ دی۔ اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ کیا کیا ہوا، وہ پانچ لوگ تھے، ان کی شکلیں مجھے اب بھی یاد ہیں۔ ایک اور کشمیری خاتون جو اسی گھر میں موجود تھی کا کہنا تھا کہ میری شادی کو صرف گیارہ دن ہوئے تھے، میں اسی دن میکے سے واپس آئی تھی، فوجیوں نے میری ساس سے پوچھا کہ یہ نئے کپڑے کس کے ہیں؟ میری ساس نے کہا یہ ہماری نئی دلہن ہے اور اس کے بعد جو ہوا میں بیان نہیں کر سکتی۔ ہمارے ساتھ صرف زیادتی نہیں ہوئی، ایسا ظلم ہوا ہے جس کی کوئی حد نہیں، آج بھی فوجیوں کو دیکھ کر ہم ڈر اور درد سے تڑپ جاتے ہیں۔