لڑکی کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے ہدواڑا میں ایک لڑکی سے مبینہ چھیڑ چھاڑ اور فائرنگ میں ہلاکتوں کے معاملے میں ہائی کورٹ کے حکم پر مذکورہ لڑکی سے ملاقات کرنے والے وکلا نے کہا ہے کہ پولیس نے لڑکی کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں رکھا ہوا ہے۔
جمعرات کو وکلا کی ایک ٹیم نے متاثرہ لڑکی سے ملاقات کی تھی۔
لڑکی کے اہل خانہ کے وکیل پرویز امروز کے مطابق پولیس لڑکی اور ان کے اہل خانہ کو اپنی مرضی سے کہیں بھی آنے جانے نہیں دیتے ہیں اور نہ ہی کسی کو ان سے ملنے دیا جاتا ہے۔
امروز کا کہنا تھا: ’ہم جمعرات کو لڑکی سے ہندواڑا ملنے گئے تھے۔ پولیس لڑکی کو کسی نامعلوم جگہ سے ان کے ماموں کے گھر لائی جہاں ہم نے لڑکی اور اس کے ماں باپ سے ملاقات کی۔‘
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے 12 اپریل سے لڑکی کو ابھی تک حراست میں رکھا ہے۔
امروز کہتے ہیں: ’پولیس نے حفاظتی تحویل کے نام پر لڑکی کو غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے۔ لڑکی اور اس کے لواحقین وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن پولیس انہیں اپنی مرضی سے کہیں بھی نہیں جانے دیتی ہے۔‘
امروز نے پولیس کی اس رپورٹ پر بھی سوالات اٹھائے ہیں جس میں پولیس نے بدھ کو ہائی کورٹ میں بتایا تھا کہ لڑکی اور اس کے اہل خانہ نے اپنی حفاظت کے لیے پولیس سے تحفظ مانگا ہے اور ان کو حراست میں نہیں رکھا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’ملاقات کے بعد لڑکی نے کہا کہ جب بھی وہ پولیس کی حراست سے باہر آئے گی تو وہ قانونی جنگ لڑ کر ان سب کو بے نقاب کرے گی جو اس کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش میں ہیں
مگر پولیس ان الزامات سے انکار کر رہی ہے۔ شمالی کشمیر کے ڈی آئی جی پولیس اتّم چند کہتے ہیں کہ ’ہم نے صرف انھیں تحفظ دیا ہے۔‘
مقامی لوگوں اور لڑکی کی ماں کے مطابق فوج کے ایک جوان نے اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ لڑکی نے ابھی تک پولیس کی حراست میں دو بیان دیے ہیں جن میں انھوں نے فوج کے جوان کی چھیڑ چھاڑ کی بات سے انکار کیا تھا۔
امروز نے یہ بھی بتایا کہ لڑکی نے جو دو بیان دیے ہیں وہ دباؤ میں دلوائے گئے ہیں۔
اس معاملے میں پولیس نے ایک مقامی لڑکے ہلال احمد کو چھیڑ چھاڑ کی افواہ پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے اور دوسرے کی تلاش ہو رہی ہے۔
لڑکی نے اپنے بیان میں ان دونوں کا نام لیا تھا۔
یہ معاملہ 12 اپریل کا ہے جب سرینگر سے 74 کلومیٹر دور واقع قصبے ہندواڑا میں مقامی لوگوں نے ایک فوجی پر لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا تھا۔
اس کے بعد پرتشدد مظاہرے ہوئے اور فوج کی فائرنگ سے ایک خاتون سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایک اور نوجوان کی موت آنسو گیس کا شیل لگنے سے ہوئی تھی۔ فوج کی فائرنگ کے خلاف وادی میں چار دن تک ہڑتال رہی تھی۔