کیا محبوبہ مفتی کشمیری شناخت کا سودا کر رہی ہیں؟
چھپن سالہ محبوبہ مفتی تقریباً دو ماہ سے ریاست کی پہلی خاتون وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے کشمیر میں برسرِ اقتدار ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بننے والی محبوبہ مفتی کو فی الوقت تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
اوّل تو وہ ابھی یہ صفائی دینے میں مصروف ہیں کہ ان کے والد مفتی سعید نے بی جے پی کے ساتھ سیاسی ناطہ کیوں جوڑا یا مرحوم سعید کے انتقال کے بعد کافی تاخیر کے باوجود انھوں نے اس رشتہ کو بحال کس چیز کے عوض رکھا؟
دوسرا ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ وہ کشمیر سے متعلق بی جے پی کے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اپنے اقتدار کا استعمال کیوں کر رہی ہیں؟ اور تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ وہ اپنے والد کی سیٹ سے الیکشن جیت سکتی ہیں یا نہیں؟
بلّی، کبوتر قضیہ
سرینگر میں جاری اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں وادی چھوڑ کر جانے والے کشمیری پنڈتوں کی واپسی اور بھارتی فوجیوں کے لیے کالونیاں قائم کرنے کی تجویز پر کئی ہفتوں سے تنازع جاری ہے۔
ایوان میں جب اس حوالے سے محبوبہ مفتی نے چھبیس سال سے بے وطن ہو چکے کشمیری پنڈتوں کی واپسی پر بات کی تو انھوں نے برجستہ کہا: ’میں کشمیری پنڈتوں کی واپسی کی متمنی ہوں۔ لیکن میں کبوتروں کو بلّی کے سامنے نہیں ڈال سکتی۔‘
ان کے اس بیان پر ہندونواز اور ہندمخالف سیاسی حلقوں نے زبردست ردعمل ظاہر کیا۔
بعد میں انھوں نے واضح کیا کہ انھوں نے دراصل مسلح شدت پسندوں کی طرف اشارہ کیا تھا کہ جن کے خوف سے پنڈت واپسی کے خواہاں نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے بلّی کبوتر فقرے کو ایک استعارہ کے طور استعمال کرکے بی جے پی کی پالیسیوں پر تجزیے کیے جا رہے ہیں۔
محبوبہ پر الزام ہے کہ وہ آر ایس ایس کی ایما پر کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کا سودا کر رہی ہیں۔
نارتھ پول اور ساؤتھ پول کا ملاپ
دو سال قبل جب کشمیر میں انتخابات ہوئے تو پہلی مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو جموں کے ہندو اکثریتی خطوں میں پچیس سیٹیں حاصل ہوئیں۔ محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کو کشمیر اور جموں کے بعض علاقوں میں کُل ملا کر اٹھائیس سیٹیں ملیں۔
ان کے والد مفتی سعید نے نیشنل کانفرنس یا کانگریس کے ساتھ سیاسی اتحاد کے بجائے بی جے پی کےساتھ ہاتھ ملایا اور کہا : ’یہ نارتھ پول اور ساؤتھ پول کا اتحاد ہے، لیکن اس اتحاد سے ریاست کے جموں اور کشمیری خطوں کے درمیان بقائے باہمی کا جذبہ بیدار ہوگا۔‘
’وزیراعلی الیکشن نہیں ہارتا‘
مفتی محمد سعید کے انتقال سے ان کی اسمبلی نشست اننت ناگ سے خالی ہوگئی ہے۔ محبوبہ مفتی فی الوقت غیرمنتخب وزیراعلیٰ ہیں۔ وہ دراصل جنوبی کشمیر کی پارلیمنٹ سیٹ سے بھارتی پارلیمان کے لیے منتخب ہیں۔ آئین کی رُو سے انھیں اقتدار کے پہلے چھ ماہ کے اندر ہی منتخب ہونا پڑے گا۔
انھوں نے انتخابات میں تاخیر کے لیے الیکشن کمیشن سے اپریل میں ہی درخواست کی تھی، لیکن بہرحال اب الیکشن کمیشن نے جنوبی کشمیر کی سیٹ کے لیے ضمنی انتخابات کا اعلان کیا ہے۔ اُنیس جون کو وہاں ووٹنگ ہوگی۔بدھ وار کو محبوبہ مفتی اور ان کے بعض حریفوں نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے ہیں۔
ایسے میں کیا واقعی محبوبہ مفتی الیکشن جیت جائینگی۔ مبصرین اور کالم نویس اعجاز احمد کہتے ہیں: ’چیف منسٹر کو الیکشن لڑنا ہو تو یہ حکومت اور حکومتی مشینری کے وقار کا سوال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی وزیراعلی کو الیکشن کا سامنا رہا ہے، اس کو فتح ملی ہے۔ کیونکہ وزیراعلیٰ الیکشن نہیں ہارتا۔
لیکن اس عام تاثر کے باوجود اکثر حلقے کہتے ہیں کہ محبوبہ مفتی کےلیے یہ الیکشن ’کرو یا مرو‘ والا چیلنج ہے۔ رکن اسمبلی انجنیئر رشید نے اچانک فیصلہ کیا ہے کہ وہ محبوبہ کے خلاف اننت ناگ سے بھی الیکشن لڑیں گے۔ وہ فی الوقت شمالی کشمیر کے لنگیٹ حلقے سے منتخب ہیں۔ اس کے علاوہ کانگریس کے ہلال شاہ اور نیشنل کانفرنس کے افتخار مسگر بھی وزیراعلیٰ کا مقابلہ کریں گے۔
انجنئیر رشید کے میدان میں آنے سے یہ مقابلہ ڈرامائی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ انجینیئر رشید اسمبلی کے سب سے زیادہ سرگرم رکن ہیں۔ وہ علیحدگی پسند لہجے میں ’ہندنواز‘ سیاست کرتے ہیں اور اکثر حکومت ہند کی نکتہ چینی کرتے ہیں۔ اپنی مخصوص سیاست کی وجہ سے وہ اپنے حلقے ہی نہیں بلکہ پوری وادی میں مشہور ہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ انجینیئر رشید کی وجہ سے محبوبہ کی جیت آسان بھی ہو سکتی ہے۔ اننت ناگ میں پی ڈی پی کو فی الوقت زبردست غیر مقبولیت کا سامنا ہے جس کا براہ راست فائدہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو جانے والا تھا۔
چونکہ انجینئیر بھی الیکشن لڑیں گے، لہذا محبوبہ کے حریفوں کے ووٹ کم ہوجائینگے، اور یہ صورتحال تکنیکی اعتبار سے ان کی جیت کو یقینی بناسکتی ہے۔ کچھ حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ محبوبہ مفتی کے لیے یہ چناؤ جیتنا اُن ساری باتوں کو صحیح ثابت کرنے کی خاطر ضروری ہے، جو انھوں نے بھاجپا کے ساتھ سیاسی اتحاد کرنے کے حق میں کہی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلی کا بجٹ اجلاس ابھی ایک ماہ تک جاری رہےگا۔ محبوبہ مفتی کو الیکشن مہم چلانے کے لیے آئے روز اننت ناگ جانا پڑے گا، اور ان کے حریف ان کے خلاف اسمبلی کے پلیٹ فارم کا بھرپور استعمال کرینگے