میں تو عام آدمی ہوں، مجھے کرفیو کی سزاکیوں
سورج آج بھی میری کھڑکی سے جھانک رہا ہے لیکن مجھے اس میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی دوستی ہے۔گذشتہ کچھ عرصے سے مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ مجھے تنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سورج دن بھر میری وادی کشمیر کا چکر لگا کر آتا ہے اور میں، جی ہاں، میں اپنے اس کمرے میں گذشتہ تقریباً ایک ماہ سے قید ہوں۔
اکثر سوچتا ہوں کہ مجھے کس جرم میں اس کرفیو کی قید کی سزا دی گئی ہے۔
میں تو ایک عام کشمیری ہوں۔ میں نہ فوجی ہوں اور نہ ہی جہادی۔ میں نے نہ کبھی کسی مظاہرے میں حصہ لیا ہے اور نہ ہی سنگ بازی کی۔
پھر بھی میرا فون ایک ماہ سے کیوں بند کر دیاگیا، میرا انٹرنیٹ کیوں بند کیا گیا ہے۔ میرا کیبل نیٹ ورک کیوں نہیں چل رہا ہے۔
اور یہ سورج، اس پر تو کوئی کرفیو یا پابندی نہیں ہے۔ اس پر کوئی پتھر بھی نہیں پھینک سکتا اور نہ ہی کوئی گولی یا پلیٹ گن سے حملہ کر سکتا ہے۔
میں تو کرفیو کی وجہ سے اپنے ہی صحن میں آ کر اس کو اپنی بھرپور نگاہوں سے بھی نہیں دیکھ سکتا۔
ہر کشمیری کی ہی طرح دن کا آغاز دودھ سے تیار کردہ نمکین چائے سے کرنے کی عادت ہے۔ لیکن گذشتہ تقریباً ایک ماہ سے بازار بند ہیں، دودھ کہاں سے ملے گا۔ نمکین چائے کا سیاہ مرکب پی پی کر اب دماغ خراب ہو گیا ہے۔
گذشتہ ماہ کی 12 تاریخ سے چھوٹے بیٹے کی یونیورسٹی کے امتحانات شروع ہونے والے تھے۔ کتنے شوق سے وہ انتظار کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ڈیڈی اس سال میں نے پوری تیاری کی ہے۔ حالات بھی ٹھیک ہیں، اب کی بار اچھے نمبرز آئیں گے۔
اور پھر اچانک جیسے کشمیر کے بازاروں، سکول جانے والے ننھے بچوں اور مسکراتے چہروں کی رونق کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی ہو۔
ایک بار پھر مظاہرے، سنگ بازی، کرفیو اور قتل و غارت گری کا بدترین دور شروع ہوا۔ اب کچھ نہیں معلوم کہ بیٹے کے امتحانات ہوں گے بھی یا نہیں۔ اس کو بری نظر لگ گئی ہے۔
میرا بیٹا اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھا رہتا ہے، گم سم۔ کسی سے بات تک نہیں کرتا۔ میں کچھ کہتا ہے تو غصہ کرتا ہے، حکومت کو برا بھلا کہتا ہے، مظاہرین کو برا بھلا کہتا ہوں اور غصے سے کہتا ہے ڈیڈي میرے امتحانات کا کیا ہوگا۔
کہیں اب کی بار بھی ایک سال کا سیمسٹر ڈیڑھ سال کا نہ ہو جائے، پھر رونا شروع کرتا ہے۔
میرا بیٹا جو موٹر سائیکل پر پورا شہر گھوم آتا تھا، دوستوں کے ساتھ ہنستا، کھیلتا تھا، کرفیو کی وجہ سے اب اس کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔
گھر میں تنگ آکر کبھی کبھی سڑک تک نکلنے کی ضد بھی کرتا ہے۔ مگر ہم میاں بیوی دن بھر اپنے بچوں کی پہرے داري کرتے ہیں۔
کیا بھروسہ سڑک پر نکل کر سنگ بازوں کے پتھر کا نشانہ بن جائے یا پھر فوجیوں کی پلیٹ گن یا گولیوں کا نشانہ بن جائے۔
بیوی بھی پریشان ہے سبزی کے نام پر بھیڑ بکریوں کی طرح ایک ماہ سے خالی ساگ کھاتے آ رہے ہیں جو كچن گارڈن میں لگایا تھا۔
گھر پر رکھا آٹا اور چاول اب تقریباً ختم ہو چکا ہے، سوچتا ہوں کرفیو اسی طرح چلتا رہا تو کیا کروں گا، بچوں کو کیا كھلاؤں گا۔
’پورا خاندان ڈپریشن کا شکار ہو چکا ہے۔ یا اللہ میری اس وادی کشمیر میں امن کے دن کب دوبارہ لوٹ کر آئیں گے۔‘