کشمیر میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق انھوں نے یہ بات پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف کے اس خط کے جواب میں کہی ہے جس میں ان کی توجہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورتحال اور وہاں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوںپر مبذول کروائی گئی تھی
دفترِ خارجہ کی جانب سے جمعے کو جاری کیے گئے بیان کے مطابق اپنے جواب میں بان کی مون نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تشدد کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کروانے اور بات چیت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔
بیان کے مطابق بان کی مون نے علاقائی امن و سلامتی کی خاطر مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کے لیے کی جانے والی پاکستانی کوششوں کی تعریف بھی کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر سمیت تمام تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں آٹھ جولائی کو برہان وانی نامی نوجوان عسکریت پسند کی انڈین فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے احتجاج کی ایک نئی لہر شروع ہوئی ہے۔
اس دوران جہاں وادی میں 40 دن سے زیادہ عرصے سے کرفیو نافذ ہے وہیں پرتشدد مظاہروں میں اور انڈین سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 65 سے زیادہ افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔
ان زخمیوں میں سے 100 سے زیادہ ایسے ہیں جن کی بینائی سی پی آر ایف کے جوانوں کی جانب سے چلائے جانے والے کارتوسوں کے چھرے لگنے سے جا چکی ہے۔
پاکستان کی جانب سے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تشدد پر آواز اٹھائی جا رہی ہے اور حال ہی میں پاکستان نے انڈین سیکریٹری خارجہ کو جموں و کشمیر کے مسئلے پر باقاعدہ بات چیت کے لیے پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔
تاہم بھارت نے یہ دعوت اس شرط پر قبول کی تھی کہ خارجہ سیکریٹریوں کی بات چیت کا محور دہشت گردی ہی ہوگا۔
انڈین وزارتِ خارجہ کے ذرائع نےبات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’چونکہ جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال کے کلیدی پہلوؤں کا تعلق سرحد پار سے ہونے والی دہشتگردی سے ہے اس لیے ہم نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ خارجہ سیکریٹریوں کی بات چیت میں انہیں پر توجہ مرکوز کی جائے۔‘