خیبر پختونخواہ

آپ ہمارے مدرسوں کو شدت پسندی اور انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں

پشاور: بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ جتنا چاہیں ہمدردی کے الفاظ استعمال کریں ہمیں ان پر کوئی اعتماد نہیں

مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم صبر سے کام لے رہے ہیں،بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ جتنا چاہیں ہمدردی کے الفاظ استعمال کریں ہمیں ان پر کوئی اعتماد نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک فتنہ الحاق کا ہے اور دوسرا فتنہ ارتداد کا ہے، ان فتنوں کو روکنے کا کام مدارس ادا کررہے ہیں مدارس میں احادیث پڑھائی جاتی ہیں یہ مدارس امت کی رہنمائی کرتے ہیں، اس وقت تمام دینی مدارس کو دباؤ میں رکھا گیا ہے تاکہ ان کو مجبور کیا جائے میں تو دینی اور دنیاوی تعلیم کے درمیان تفریق کے بھی خلاف ہوں، علم دینی ہو یا دنیاوی، علم علم ہے۔

انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ جتنا چاہیں ہمدردی کے الفاظ استعمال کریں ہمیں ان پر کوئی اعتماد نہیں، یہ جتنے میٹھی زبان استعمال کریں پھر بھی ان پر اعتماد نہیں کریں گے، انہوں نے دینی مدارس کو تباہ کر دیا ہے، ہم انہیں اس سے آزاد کریں گے
ہم کہتے ہیں رجسٹریشن کراؤ یہ نہیں کراتے، ہم کہتے ہیں ہمارے بینک اکاؤنٹ کھولو ہم ریاست کے نظام میں رہنا چاہتے ہیں مگر یہ نہیں چاہتے۔

فضل الرحمان نے کہا کہ انہیں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ میرے مدرسے کو شدت اور انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں مگر ہم صبر سے کام لے رہے ہیں دہشت گرد ہم پیدا نہیں کررہے، یہ ایک جنگ ہے اور ہم مذہبی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، آپ نے ہمارے خلاف اعلان جنگ کیا ہوا ہے اب سامنا ہو چکا ہے اور ہم ڈٹے ہوئے ہیں، ہم نے پڑھا ہے کہ قیامت تک اسلام کے لئے جنگ لڑنا ہے کیونکہ ہم نے جنت میں جانا یے۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے قبل پی ڈی ایم کی حکومت بنی، پیپلز پارٹی اس میں شامل تھی اور شبہاز وزیراعظم تھے، طویل بحث کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ مدارس کو اختیار ہوگا کہ جس کے ساتھ چاہیں رجسٹریشن کرائیں گے ہم نے اس وقت بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تھا، پھر ڈرافٹ بنا اور 1860 سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہم نے ایک شق کا اضافہ کیا یہ ڈرافٹ ہم نے نہیں حکومت نے تیار کیا تھا اس پر اتفاق رائے ہوا تھا بل اسمبلی سے پاس ہوا یہ بل اسمبلی میں پیش ہوا مگر کسی نے روک دیا، ابھی 26 ویں ترمیم میں اس متفقہ ڈرافٹ پر قانون سازی چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں وہ بل ایکٹ بنے۔

انہوں ںے کہا کہ پیپلز پارٹی اب بھی حکومت میں ہے، ایک ماہ تک مذاکرات کیے اور مجھے انگیج رکھا گیا، پانچ گھنٹے مذاکرات کے بعد یہ بل پاس ہوا اگلے روز میاں نواز شریف کے ساتھ پانچ گھنٹے مذاکرات ہوئے اور بل پر اتفاق رائے قائم ہوا، پہلے سینٹ بل آیا، 26 ویں ترمیم کا بل 56 شقوں پر مشتمل تھا پھر ہم نے اپنے پانچ نکات شامل کیے، بل پاس ہوگیا اور اب ایوان صدر سے اعتراضات آرہے ہیں، لاہور اجلاس میں صدر اور بلاول موجود تھے اب اعتراض لگانا درست نہیں، ان کو پیغام ہے کہ ان پر اعتراضات قبول نہیں کہاں تک آپ ہمارے تحمل کا امتحان لے رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم نے بندوق کا ڈنڈا نہیں اٹھایا دلائل سے بات کی، آپ 56 شقوں میں 34 سے دست بردار ہوئے ہمیں مذاکرات سے انکار نہیں لیکن اگر ہم مایوس ہو گئے تو انہیں بتائیں گے کہ آپ کا دباؤ چلتا ہے یا ہمارا، ایسے سوچ والے احمقوں کے جنت میں رہتے ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close