خیبر پختونخواہ

’امن کمیٹیوں کے ممبران کو دفاع کا حق اور ہتھیار دیے جائیں

سوات میں منعقدہ جرگے میں شامل افراد نے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں دفاع کا حق اور ہتھیار دیے جائیں تا کہ وہ شدت پسندوں کے حملوں کی صورت میں دفاع سے محروم نہ ہوں۔

حالیہ چند دنوں کے دوران امن کمیٹیوں کے ممبران پر بڑھتے ہوئے شدت پسند حملوں کو ناکام بنانے اور علاقے میں قائم امن کو دیرپا بنانے کے لیے پاک فوج اور امن کمیٹیوں کے ممبران کے درمیان ایک گرینڈ جرگہ منعقد ہوا۔

اس جرگے میں جنرل آپریشنل کمانڈر میجر جنرل آصف غفور سمیت مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سات سو کے قریب ممبران شریک ہوئے۔

سوات سے صحافی انور شاہ کے مطابق جرگے میں شریک ممبران نے میجر جنرل آصف غفور سے مطالبہ کیا کہ انھیں دفاع کا حق اور ہتھیار دیے جائیں تا کہ وہ شدت پسندوں کے حملوں کی صورت میں دفاع سے محروم نہ ہوں۔

بعض ممبران کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے کرفیو کا نفاذ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے عام لوگ گھروں کے اندر محصور ہو جاتے ہیں جبکہ حملہ آور بغیر کسی خوف کے باآسانی فرار ہوکر محفوظ مقام پر منتقل ہو جاتے ہیں۔

اس حوالے سے تحصیل کبل کے علاقے سے تعلق رکھنے والے امن کمیٹی کے ممبر ابراہیم دیولئی نےبتایا کہ ’جرگے میں ہم نے فوج کو تجاویز دی ہیں جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہمارے پاس دفاع کا حق نہیں، ہمیں صرف کارڈ دیے گئے ہیں جبکہ تربیت اور اسلحہ بھی نہیں دیاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک ہمارے کئی لوگ یکطرفہ حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔‘

ایک اور دیہی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین اکبر حسین نے بتایا کہ ’شدت پسند جن علاقوں میں سرگرم ہیں ان میں چارباغ، کبل اور مٹہ کے علاقے شامل ہیں اور فوج کو چاہیے کہ ان علاقوں کو خصوصی توجہ دے اور ان میں ٹارگٹ کلنگ کرنے والے شدت پسندوں کو گرفتار کیا جائے۔‘

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ’امن کمیٹیوں کے ممبران کی جان و مال کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے کیونکہ سکیورٹی میں امن کمیٹیوں کا کردار نہایت اہم ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’دفاع کا کام سکیورٹی اداروں کا ہے اور ہمیں دفاعی اداروں کو مضبوط کرنا ہے شدت پسندوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے فوج، پولیس، امن کمیٹیوں کے ممبران اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سوات میں قیام امن کے بعد بننے والی امن کمیٹیوں کے 160 ممبران کو شدت پسند حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ کچھ عرصے سے ان حملوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close