سوات میں مسکان کی ابھرتی آواز
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کی ایک تنگ گلی میں واقع چھوٹے سے مکان میں 15 سالہ مسکان فیاض عیدالاضحیٰ کے موقعے پر ریلیز ہونے والی پشتو فلم کے لیے گانے کی ریہرسل کر رہی ہیں۔محلہ ملوک آباد کی رہائشی مسکان ساتویں جماعت کی طالبہ ہیں اور وہ اپنی خالہ غزالہ جاوید کی گائیکی سے بیحد متاثر ہیں۔غزالہ جاوید پشتو زبان کی معروف گلوکارہ تھیں جنھیں ان کے شوہر نے پشاور میں گھریلو ناچاقی پر گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مسکان فیاض نے بتایا کہ میں نے سات سال کی عمر میں گلوکاری کے فن میں قدم رکھا کیونکہ میں اپنی خالہ کی گائیکی کو بے حد پسند کرتی تھی اور ان سے متاثر تھی۔ میں انھی کی طرح پشتو کی ایک عظیم گلوکارہ بننا چاہتی ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ اس فن کو اپنانے کی ایک اور وجہ خاندانی طور پر بھی اس سے وابستگی ہے۔ ہمارے خاندان کی زیادہ تر لڑکیاں اس فن سے منسلک ہیں۔مسکان اب پشتو فلموں کے لیے بھی گانے گا رہی ہیں اور حال ہی میں ریلیز ہونے والی پشتو فلموں’’ باز او شہباز‘‘ اور ’’خیر دے یار نشہ کے دے‘‘ کے لیے بھی انھوں نے گیت گائے ہیں۔ان کے بقول وہ عیدالاضحیٰ پر ریلیز ہونے والی ایک پشتو فلم کے لیے بھی گیت گائیں گی۔مسکان کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ ہارمونیم بھی خود بجاتی ہیں۔مسکان کے والد فیاض کا کہنا ہے کہ عام بول چال میں مسکان کی زبان میں لکنت ہے لیکن یہ میری بیٹی کی خوش قسمتی ہے کہ گانے کے دوران ان کی زبان میں لکنت نہیں رہتی۔ انھیں اس حوالے سے کسی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن میری خواہش ہے کہ ان کی بیٹی مزید پڑھے۔مسکان اپنے فنی سفر کے حوالے سے مطمئن ہیں اور وہ ایک بڑی گلوکارہ بننے کا عزم رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گلوکاری کے ساتھ ساتھ اپنا تعلیمی سفر بھی جاری رکھیں گی۔سوات کے فنکاروں کا کہنا ہے کہ مسکان کے گائے ہوئے گیت نہ صرف مقامی سطح پر پسند کیے جا رہے ہیں بلکہ بیرون ممالک میں مقیم پشتون بھی اسے بیحد پسند کرتے ہیں۔خیال رہے کہ سوات میں طالبان کی شکست اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد موسیقی اس علاقے میں پھر سے جگہ بنانے لگی ہے۔مینگورہ میں رقاصوں کا محلہ کہلانے والے بنڑ کی رونقیں بھی بحال ہو گئی ہیں اور موسیقی کی گونج نے اس خوف کو شکست دی ہے جس کے باعث اس محلے کے مکین اپنے گھر بار چھوڑ گئے تھے۔