خیبر پختونخواہ

پشاور کے مینا بازار میں کاروباری رونقیں لوٹ آئیں

پیچیدہ اور دشوار گزارراستوں کے درمیان پشاور کے علاقے پیپل منڈی میں قائم مینا بازارمیں اس وقت خریداروں کا رش رہتا ہے جہاں زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے۔ اس بازار میں سوئی سے لے کر لپ اسٹک ، زیورات سے لےکرہوزری آئٹمز فروخت ہوتے ہیں۔ یہاں کاروبار کے بہت اچھے مواقع میسر ہیں لیکن تاجر حضرات 28 اکتوبر2009 کا وہ دن نہیں بھولےجب شہر کی تاریخ کے بدترین کار بم دھماکے میں 137 افراد جان سے چلے گئے تھے۔

اس بازار میں 30 سال سے کاروبار کرنے والے حاجی نور دین نے بتایا کہ روزانہ کام پر آنے سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں،ہمیں نہیں پتہ کہ واپس گھر آئیں گے یا کسی بم دھماکے یا خود کش حملے کی نذر ہوجائیں گے۔

حاجی نوردین کی دکان اس بم دھماکے میں مکمل تباہ ہوگئی تھی اور وہاں موجود 8 خواتین کاہگ بھی جاں بحق ہوئی تھیں تاہم نور کی جان بچ گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا حج پرجانے کا ارادہ تھا اوردھماکے والے روز ان کے دوست نے ظہرانے پر مدعو کیا تھا، تاہم انہوں نےعصر کے بعد کھانے پر جانے کا ارادہ کیا اور دکان میں ہی موجود رہے۔ اچانک زوردار دھماکہ ہوا اور ان کی نظروں کےسامنے اندھیرا چھا گیا۔ حاجی نور کے مطابق ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کسی نے ان کی آنکھوں میں مرچیں ڈال دی ہوں،ان کا بیٹا والد کی جانب کلمہ شہادت پڑھتا ہوا دوڑا اور بتایا کہ بم دھماکا ہوا ہے۔

حاجی نور نے بتایا کہ دھماکے کے بعد بیٹے نے گھسیٹ کردکان سے باہر نکالا اور پھر فورا ہی دکان میں آگ لگ گئی۔ حاجی نور کو ایک ہفتے تک کچھ دکھائی نہیں دیتارہا۔پھروہ حج پر چلے گئے اور واپس آکر دکان کو دوبارہ تعمیرکروایا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پچھلے 5 سے 6 برس میں کاروبار اچھا چل رہا ہے،بازار میں کافی رش ہوتا ہے اور چلنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی۔ یہ اس طرح ممکن ہوا جب پشاور میں امن لوٹا اور لوگوں نے پراعتماد اور بے خوف انداز میں بازاروں کا رخ کیا۔

مینا بازار میں 350 سے زائد دکانیں ہیں۔ یہاں درزیوں ، ڈیزائنرز ،رنگ سازوں اور جوہریوں کے بھی اسٹالز موجود ہیں۔مینا بازار ٹریڈرزیونین کے صدر صیام الحق نے بتایا کہ کاروبار کرنے کے لیے امن اور تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پشاور میں امن عامہ کی صورتحال کافی بہتر ہونے سے کاروبار پر بھی اچھا اثر پڑا ہے۔ تین سال تک کاروباری سرگرمیاں ماند رہیں،اس دوران خواتین باہر نکلتے ہوئے بھی خوف اور دہشت کا شکار رہتی تھی،تاہم 5 برسوں میں دہشت گردی میں کمی آئی ہے۔

زاہد خان نامی ایک اور تاجر نے بتایا کہ کاروباری سرگرمیاں 70 فیصد بہتر ہوئی ہیں۔ اس دھماکے کی تلخ یادیں دہراتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ جب یہ دھماکا ہوا تو وہ فورا بازار کے پیپل منڈی والے حصے کی جانب بھاگے جہاں پہنچ کر انھوں نے مسجد اور دکانوں کے ملبے کا ڈھیر دیکھا۔ یہ سب دوبارہ تعمیرکیے جا چکے ہیں لیکن ماضی کی تکلیف دہ یادیں بھلائے نہیں بھولتیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close