جرگے کے حکم پر ملزمان کی رہائی
لنڈی کوتل میں پیش آنے والے اس واقعے میں قتل کی جانے والی خاتون فضیلتکے شوہر سید عالم اپنی بیوی کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے قبائلی قوانین کے تحت عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں اور انھوں نے کمشنر پشاور ڈویژن کی عدالت میں جرگے کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی کی ہے۔
جرگے نے فیصلہ دیا تھا کہ فضیلت کے دیوروں نے اپنی بھابھی اور ماموں کو غیرت کے نام پر قتل کیا ہے اس لیے انھیں سزا نہیں دی جا سکتی جبکہ سید عالم کا کہنا ہے کہ ان کے بھائیوں نے اپنے کاروباری معاملے طے کرنے کے لیے ان کی بیوی اور ماموں کو قتل کیا اور اسے غیرت کے نام پر قتل کا نام دیا ہے۔
قبائلی علاقوں میں کاروباری لین دین میں خاتون اور مرد کے قتل کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کا رنگ دینا کوئی مشکل نہیں۔
سید عالم کا کہنا ہے کہ انھیں اپنی بیوی پر اعتماد تھا اور وہ کوئی غلط کام کر ہی نہیں سکتی۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے بھائیوں نے انھیں دھوکے سے افغانستان بھیجا اور ان کی غیر موجودگی میں ان کی بیوی کو گھر میں ماں اور دیگر خواتین کے سامنے قتل کیا گیا جبکہ ان کے ماموں کو اس سے پہلے رقم لینے کے لیے بلایا تھا اور جب وہ گاڑی میں بیٹھ رہے تھے اس وقت بیٹے کے سامنے انھیں گولی مار دی گئی۔
خیبر ایجنسی میں لنڈی کوتل کی پولیٹکل انتظامیہ نے اس مقدمے کے لیے جرگہ مقرر کیا جس کا فیصلہ فضیلت بی بی کے خلاف آیا ہے اور ملزمان رہا کر دیے گئے۔
سید عالم کا کہنا ہے کہ وہ جرگے کے فیصلے کو نہیں مانتے اس لیے انھوں نے کمشنر پشاور ڈویژن کی عدالت میں اپیل کی ہے۔
قبائلی علاقوں میں رائج نظام انصاف کے تحت جرگے کے فیصلے کو قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور جرگوں یا پولیٹکل انتظامیہ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کے لیے کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ جانے کا حق قبائلیوں کو حاصل نہیں ہے اس لیے وہ متعلقہ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کے کمشنر کی عدالت میں ہی اپیل کر سکتے ہیں۔
فاٹا لائرز فورم کے صدر اعجاز مہمند ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں جرگوں کے فیصلوں پر اکثر سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور یہ درست ہے کہ لوگ اپنے کاروباری لین دین کے معاملات طے کرنے کے لیے عورتوں کو مار دیتے ہیں اور اسے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کا رنگ دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کے لوگوں کو بھی پاکستان کے دیگر شہریوں کے طرح تمام حقوق دیے جانے چاہییں۔
اس بارے میں لنڈی کوتل کے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ سے رابطے کی بارہا کوشش کی گئی لیکن ہر بار رابطہ کرنے پر یہی بتایا جاتا کہ صاحب موجود نہیں ہیں یا مصروف ہیں۔