بھارتی جاسوس حامد نہال انصاری کو تین سال قید کی سزا
پاکستان میں ایک فوجی عدالت نے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے ایک بھارتی شہری کو تین سال قید کی سزا سنائی ہے۔
عدالت کی طرف سزا سنائے جانے کے بعد ملزم حامد نہال انصاری کو سینٹرل جیل پشاور منتقل کر دیا گیا ہے۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم کو دو دن پہلے پشاور میں ایک فوجی عدالت کی طرف سے جاسوسی کے الزام میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔
ملزم کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ملزم حامد نہال انصاری نے تفتیش کے دوران اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر افغانستان سے طورخم کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے اور ان کی آمد کا مقصد جاسوسی کرنا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ ملزم کے قبضے سے حساس نوعیت کے نقشے اور کچھ دیگر دستاویزات بھی برآمد کی گئی ہیں۔
ملزم نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے فیس بک پر سات اکاؤنٹ کھولے رکھے تھے جبکہ انھوں نے 30 کے قریب ای میل پتے بھی بنائے ہوئے تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ ملزم کو پولیس اور حساس اداروں نے تین سال قبل کوہاٹ سے حراست میں لیا تھا جس کے بعد سے وہ لاپتہ تھے۔
ملزم کی والدہ مس فوزیہ انصاری کی طرف سے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں حبس بے جا کی درخواست بھی دائر کی گئی جس پر گذشتہ ماہ وزارتِ دفاع کی طرف سے جواب داخل کیا گیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ملزم حامد نہال انصاری کو پاکستانی فوج نے گرفتار کر رکھا ہے اور اس کے خلاف فوجی عدالت میں کارروائی چل رہی ہے۔
حامد نہال انصاری کی عمر 31 سال کے لک بھگ بتائی جاتی ہے اور وہ سافٹ ویئر انجینیئر ہیں۔
ملزم کی والدہ کا دعویٰ ہے کہ ان کے بیٹے کی چند پاکستانی شہریوں سے دوستی تھی جنھوں نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ بغیر ویزے کے افغانستان کے راستے سے پاکستان آ سکتے ہیں۔
ان کی والدہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کے بیٹے کی انٹرنیٹ پر ایک پاکستانی خاتون سے بھی دوستی ہوگئی تھی جس سے ملنے کے لیے حامد نہال پاکستان گئے تھے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ ملزم کی والدہ کی طرف سے سپریم کورٹ کی انسانی حقوق کی سیل میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں ان کے بیٹے کی بازیابی کی استدعا کی گئی تھی۔
تاہم بعد میں عدالت عظمیٰ کے سیل نے یہ درخواست جبری گمشدگی کے کمیشن میں اس حکم کے ساتھ بھیج دی تھی کہ حامد نہال انصاری کی بازیابی کے سلسلے میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے اور اس سلسلے میں ان کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی ار بھی درج کی جائے۔