خیبر پختونخواہ

طالبان کی دھمکی پر اعتزاز حسن کے خاندان نے سکیورٹی مانگ لی

ہنگو: خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں جنوری 2014ء میں اپنے اسکول پر ایک خودکش حملے کو ناکام بنانے والے طالب علم اعتزاز حسن کے خاندان کا کہنا ہے کہ اُنہیں طالبان کی طرف سے دھمکی ملی ہے۔ ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی میں اپنے اسکول کی طرف بڑھنے والے خودکش حملہ آور کو اعتزاز حسن نے روکنے کی کوشش کی تھی اور ہاتھا پائی کے دوران دھماکے سے 15 سالہ اعتزاز موت کے منہ میں چلا گیا تھا، لیکن اپنی جان کی قربانی سے اعتزاز نے اسکول کو بڑی تباہی سے بچا لیا تھا۔ خودکش حملہ آور کو اسکول پر حملے سے قبل ہی دبوچ کر اعتزاز حسن نے جس بہادری کا مظاہر کیا، اس پر نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس نوجوان طالب علم کو خراج عقیدت تحیسن پیش کیا جاتا رہا ہے۔

اعتزاز حسن کے بڑے بھائی مجتبٰی حسن بنگش نے بدھ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اُنہیں ایک خط کی صورت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے دھمکی ملی ہے۔ مجتبٰی حسن کا کہنا تھا کہ 3 اپریل کو اُنہیں دھمکی آمیز خط ملا تھا اور 6 اپریل کو انہوں نے پولیس میں اس کی رپورٹ درج کرائی تھی، لیکن ابھی تک انہیں کوئی سکیورٹی نہیں ملی۔ کالعدم تحریک طالبان سے منسوب خط جو اعتزاز حسن کے خاندان کو بھیجا گیا، اُس میں یہ تحریر ہے کہ "اعتراز ہیرو نہیں ہے اور میڈیا اُس کی اشتہار بازی چھوڑ دے۔”

خط میں اعتزاز کے بھائی مجتبٰی کو متبنہ کرتے ہوتے کہا گیا ہے کہ وہ میڈیا اور حکومتی اداروں سے ملنا چھوڑ دے، ورنہ نقصان کا خود ذمہ دار ہوگا۔ طالبان کی اس دھمکی اور اعتزاز کے خاندان کی طرف سے تحفظ کے مطالبے پر صوبہ خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ حکومت پاکستان نے اعتزاز حسن کی بہادری پر انہیں ستارہ شجاعت سے بھی نوازا تھا، جبکہ ابراہیم زئی کے سرکاری اسکول کو بھی ان کے نام سے منسوب کر دیا گیا تھا۔ اعتزاز کے بھائی مجتبٰی بنگش کہتے ہیں کہ اُنہیں خدشہ ہے کہ طالبان اس اسکول کو پھر نشانہ بنا سکتے ہیں، اس لئے اُنہوں نے حکام سے درخواست کی ہے کہ اسکول کی سکیورٹی کو سخت بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔

اُن کے بقول ابراہیم زئی میں اعتزاز کے نام سے منسوب اسکول میں لگ بھگ 450 طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ مجتبٰی حسن کہتے ہیں کہ سلامتی کی خدشات کے سبب اُن کے خاندان کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے، اعتزاز کی موت کے بعد اُن کی زندگی صرف گاؤں کی حد تک محدود ہوگئی ہے اور وہ کہیں آجا نہیں سکتے۔ خودکش بمبار کو روکنے کی کوشش کے دوران اپنی جان کی قربانی دینے والے اعتزاز حسن کی کوشش کو نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی سراہا گیا تھا اور اس بارے میں بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور اخبارات میں خبریں اور فیچر شائع ہوئے تھے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close