ایک خاندان، جسے مٹھائی نے اجاڑ دیا
لیہ: صوبہ پنجاب کے ضلع لیہ کے گاؤں چک نمبر 109-م ل میں عمر حیات کے مٹی کے چھوٹے سے گھر میں گذشتہ بدھ سے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، پہلے لوگ انھیں مبارکباد دینے آرہے تھے اور اب تعزیت کرنے۔
عمر حیات کے پوتے عبداللہ کی پیدائش گذشتہ بدھ کو ہوئی، جس کے بعد اس کے والد محمد سجاد نے چک نمبر 111-ٹی ڈی اے کی ایک مٹھائی کی دکان سے 5 کلو لڈو خریدے تاکہ اس خوشی کے موقع پر سب کا منہ میٹھا کرواسکے۔
محمد سجاد کو علم نہیں تھا کہ ان لڈوؤں میں کوئی زہر ملا ہوا ہے اور جس جس نے وہ لڈو کھائے، ایک کے بعد ایک یا تو وہ موت کے منہ میں چلا گیا یا پھر اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔
محمد حیات کے سجاد سمیت 8 بیٹے، ایک بیٹی اور 3 پوتے بھی اس واقعے میں ہلاک ہوگئے۔
حیات کے پڑوسی غلام حسین نے روتے ہوئے بتایا، ہم جمعرات سے 15 لاشوں کی تدفین کرچکے ہیں، اللہ ہمیں معاف فرمائے’۔
اُس بدقسمت دن طارق ہوٹل اور سوئیٹ شاپ سے مٹھائی خریدنے والے درجنوں افراد یا تو مر چکے ہیں یا پھر لیہ، ملتان، بھکر اور فیصل آباد کے مختلف ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
پیر 25 اپریل تک ہلاکتوں کی تعداد 26 تک جاپہنچی تھی جو ہفتہ 23 اپریل کو 23 اور جمعہ 22 اپریل کو 14 تھی۔
مقامی افراد کے مطابق مٹھائی کھانے کے بعد اہلخانہ نے الٹیاں شروع کردیں، انھیں لیہ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرز ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اسی دوران زہر خورانی کے دیگر مریض بھی مذکورہ ہسپتال اور فتح پور، بھکر اور کروڑ کے دیگر ہسپتالوں میں لائے جاتے رہے۔
ڈاکٹروں نے اُن مریضوں کو ملتان کے نشتر ہسپتال بھیج دیا، جن کی حالت تشویش ناک تھی، تاہم ڈاکٹر بدھ کو ہسپتال لائے جانے والے 72 میں سے 26 افراد کو بچانے میں ناکام رہے۔
محمد حیات کے خاندان کے 12 افراد اس زہریلی مٹھائی کا شکار ہوئے، جن میں سجاد، محمد عرفان، رمضان، شہباز، خضر حیات، شیر محمد، سکندر حیات، محمد ارشاد، فرزانہ بی بی، شائستہ بی بی، ارم اور حسیب شامل ہیں۔
دیگر ہلاک شدگان میں غلام سرور، عدنان، عادل، عبدالغفور، امیر محمد، گلناز علی، بلال، نزاکت علی، اشرف علی، محمد عرفان، محمد برہان، عبداللہ غلام غازی اور عشرت شامل ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ حکام نے مذکورہ مٹھائی کی دکان کو سیل کردیا اور مٹھائی کے نمونے لاہور کی فرانزک لیبارٹری بھجوائے گئے، جبکہ دکاندار کے خلاف خالص فوڈ ایکٹ کی دفعات 23-سی، 23-ای، 23-اے اور 23-ڈی کے تحت فتح پور پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کروا دیا گیا۔
متوفی سجاد کے انکل محمد اقبال کی مدعیت میں بھی دکان کے مالک طارق، خالد محمود اور 12 سالہ ملازم حامد کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 322 اور 337-جے کے تحت مقدمہ درج کرکے انھیں گرفتار کرلیا گیا۔
محکمہ صحت کے عہدیداران نے ڈان کو بتایا کہ مٹھائی میں سلفونائیل نامی زہریلا مواد پایا گیا جو انتہائی مہلک تھا، پاکستان میں اس پر پابندی ہے اور یہ فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر جراثیم کش ادویات فروخت کرنے والی دکان پر یہ موجود ہوتا ہے۔
ایک مقامی ڈاکٹر نے ڈان کو بتایا کہ اس زہریلے مواد نے لوگوں کے دماغ اور پھیپھڑوں کو متاثر کیا، جس سے اُن کے بچنے کے امکانات انتہائی کم ہوگئے۔ انھوں نے کہا کہ 2 مریضوں کو کراچی کے آغا خان ہسپتال منتقل کیا جاسکتا ہے تاکہ اس زہریلے مادے کے اصل نقصانات کا تعین کیا جاسکے۔