پشاور یونیورسٹی حملہ افغانستان سے کیا گیا، ترجمان پاک فوج
راولپنڈی: پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ پشاور یونیورسٹی حملہ افغانستان سے کیا گیا جس کے ثبوت بھی افغان ڈی جی ایم او کو دے دیے ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ پشاورحملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے قبول کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پشاوریونیورسٹی پرحملہ افغانستان سے کیا گیا، دہشت گرد حملے کے وقت افغانستان میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ رابطے میں تھے، افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی نے حملے کی پلاننگ کی، اِس وقت بھی حملہ کرنے اور کرانے والے دہشت گرد افغانستان میں موجود ہیں، افغانستان کے ڈی جی ایم او وفد کے ہمراہ پاکستان میں ہیں، ان کے ساتھ ہماری بات چیت چل رہی ہے جب کہ حملے کے ثبوت بھی افغان ڈی جی ایم او کو دیے گئے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ پشاوریونیورسٹی پر حملہ کرنے والے دہشت گرد رکشے کے ذریعے صبح 8 بج کر 45 منٹ پر ڈائریکٹوریٹ زراعت پہنچے، واقعے کے وقت 40 سے 50 طالبعلم موجود تھے، تینوں دہشت گردوں نے خود کش جیکٹس پہن رکھی تھیں، واقعے میں ایک چوکیدار اور 7 طلبہ جاں بحق ہوئے جب کہ پولیس کے بہترین تعاون سے فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے تمام دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچادیا اور طلبا کو بحفاظت یونیورسٹی سے نکال لیا گیا، پاکستان میں حالات اچھے کردیے ہیں اور بھی بہتر ہوں گے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: حملہ کامیاب ہوجاتا تو سیکڑوں ہلاکتیں ہوسکتی تھیں، آئی جی
میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اندر کا کام وہاں کی فورسز کو ہی کرنا ہے، پاکستان نے اپنی طرف کا جتنا کام ہوسکتا تھا اس سے بڑھ کر کیا، پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جو کیا وہ دنیا کے کسی اور ملک نے نہیں کیا تاہم ملک دشمن عناصر کی نظریں سی پیک اور بلوچستان پر ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ہماری کوششیں افغانستان میں امن کے حوالے سے بھی ہیں، ہمارا ہر قسم کا تعاون افغانستان کے ساتھ ہے، جنرل نکلسن نے بیان دیا تھا افغانستان میں امن سے متعلق پاکستان کا کیا کردارہے تاہم نکلسن کا یہ کہنا غیر منصفانہ ہے کہ پاکستان کے اقدامات ناکافی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آرمی چیف افغانستان گئے تھے جہاں اشرف غنی سے اچھی ملاقات ہوئی، اشرف غنی نے اتفاق کیا تھا کہ پاکستان کی حمایت پہلے بھی ہے اوربھی چاہیے، افغانستان کے ساتھ مذاکرات ہوتے رہتے ہیں اور آرمی چیف اور اشرف غنی کی ملاقات کے بعد ہی افغان وفد پاکستان آیا ہے۔