کم سن زینب کے علاقے میں تمام افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کا فیصلہ
قصور: زینب قتل کیس میں فرانزک ٹیم نے علاقے کے تمام مردوں کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنے شروع کر دیے ہیں۔ زینب قتل کیس میں تاحال کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ہے، تفتیشی ٹیموں نے زینب کے گھر اور لاش ملنے کی جگہ کے قریب لگے تمام سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز حاصل کر لی ہیں، ملزم کی گرفتاری کو یقینی بنانے کے لیے تفتیش کا دائرہ کار وسیع کیا گیا ہے اور فرانزک ٹیم ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے علاقے کے تمام مردوں کے نمونے حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ ڈی جی فرانزک ڈاکٹر محمد اشرف طاہر کے ہمراہ 4 فرانزک ماہرین اور 6 انٹیلی جینس افسران موجود ہیں۔ جے آئی ٹی کا روزانہ کی بنیاد پر قصور میں اجلاس جاری ہے اور تحقیقاتی ٹیموں کو تفتیش میں تیزی لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مقتولہ زینب کے اغواء کار کی مزید تصاویر حاصل کرلی ہیں، ان تصاویر میں واضح دیکھا جاسکتا ہے کہ مبینہ اغواء کار چہرے پر عینک لگاتا ہے اور گھنی داڑھی ہے، مقتولہ زینب پہلی فوٹیج میں اسی اغواء کار کے ساتھ دیکھی گئی تھی تاہم زینب کے لواحقین اغواء کار کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نادرا ریکارڈ میں مشکوک شخص کی تصویر کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔ دوسری جانب زینب قتل کیس کی فرانزک رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے قصور میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران زیادتی کے 13 کیس رپورٹ ہوئے، جن میں سے 8 بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے والا ایک ہی شخص ہے، دیگر واقعات میں 3 مختلف افراد ملوث ہیں جب کہ 2 واقعات میں ملزموں کے سیمپل ہی نہیں مل سکے۔ زیادتی کا شکار ہونے والی تمام بچیوں کی عمریں 5 سے 7 کے درمیان تھیں، زینب بھی سیریل کلنگ کا شکار ہوئی، پولیس نے ڈیڑھ سال میں 96 افراد کے ٹیسٹ کروائے، تاہم کوئی ملزم گرفتار نہیں کیا جا سکا۔