پولیس زینب کے قاتل تک کیسے پہنچی، سنسنی خیز انکشاف
لاہور: زینب قتل کیس میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ پولیس ایک جیکٹ کی مدد سے مبینہ قاتل عمران تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی جب کہ ملزم کی والدہ نے بیٹے کی گرفتاری میں مدد بھی کی۔ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری جمعرات کی شب 7 سالہ زینب کو اغوا کیا گیا اور پھر زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ 23 جنوری کو ملزم عمران علی کو گرفتار کرلیا گیا جس کا ڈی این اے بھی قاتل کے ڈی اے این اے سے میچ ہوگیا ہے۔
ڈی این اے رپورٹ کے مطابق 24 سالہ ملزم عمران علی نہ صرف زینب بلکہ اس سے پہلے بھی اغوا ہونے والی 7 بچیوں کے قتل میں ملوث ہے۔ کیس کی کچھ تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ پولیس نے کیسے قاتل کا سراغ لگایا۔ بی بی سی سے گفتگو کرنے والے تحقیقاتی ٹیم کے ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ قصور میں قاتل کی تلاش ایسی تھی جیسے بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنا۔
پہلے تخمینہ لگایا گیا کہ شہر کی آبادی 30 لاکھ ہے جس میں خواتین اور بزرگوں کے نکالنے کے بعد 60 سے 70 ہزار افراد تفتیش کے دائرے میں آتے ہیں۔ تفتیشی اداروں نے 1100 سے زائد افراد کا ڈی این اے کیا اور 814 ویں نمبر پر کیا گیا ڈی این اے قاتل کے ڈی این اے سے میچ کرگیا۔
واقعے کی سی سی ٹی وی ویڈیو سامنے آئی جس میں بچی قاتل کے ساتھ جارہی تھی اور ملزم نے جیکٹ پہنی تھی جس کے کندھوں پر سامنے کی جانب دو بڑے بٹن لگے تھے۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ فوٹیج میں جیکٹ کا رنگ سفید نظر آ رہا ہے جو اس کا اصل رنگ نہیں اور کوئی بھی گہرا رنگ ہو سکتا تھا۔ چھاپے کے دوران عمران علی کے گھر سے ایسی ہی ایک جیکٹ ملی جس کے دونوں بٹنوں کی مدد سے یہ پولیس ملزم کی گردن تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔
ملزم کی والدہ نے بھی گرفتاری میں مدد کی۔ اس طرح ایک سیریل کلر اپنی مخصوص جیکٹ کی وجہ سے پکڑا گیا۔ آئی جی پنجاب نے خصوصی طور پر واقعے کی جے آئی ٹی میں ڈی پی او وہاڑی عمر سعید کو شامل کیا جنہیں اسی قسم کا کیس کم سے کم وقت میں حل کرنے میں مہارت حاصل ہے۔
ملزم سے تفتیش کرنے والے پولیس افسران کے مطابق ملزم نے بہت زیادہ پس و پیش نہیں کی اور دوسری بات پر ہی اس آنے سارے قتل اور جرائم مان لیے۔ پولیس کے مطابق ملزم زیادہ چالاک اور ہوشیار نہیں تھا بلکہ اگر مقامی تھانے کی پولیس پہلے ہی اس کیس کو سنجیدگی سے لیتی اور درست لائن پر تفتیش کرتی تو شروع میں ہی پکڑا جاتا۔ عمران علی نہ صرف سیریل کِلر یعنی قاتل ہے بلکہ ایک سیریل پیڈوفائل بھی ہے جو نفسیاتی حد تک بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہے۔
ملزم کی والدہ اور چچا نے بتایا کہ انھیں ٹی وی پر فوٹیج دیکھنے کے بعد شک تو ہوا تھا کہ یہ ان کا اپنا بیٹا ہوسکتا ہے مگر کسی نے پولیس کو نہیں بتایا۔ ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ گرفتاری کے خوف سے بچوں کا گلا گھونٹ کر انہیں قتل کرتا تھا جبکہ اس نے پانچ بچیوں کو زیر تعمیر مکانوں میں ریپ کر کے قتل کیا اور لاش فوراً ہی ٹھکانے لگا دی۔