” کچھ عرصہ پہلے تک زینب کے قاتل کو اپنے سے زیادہ عمر کی عورتوں کا شوق تھا، پھر ایک دن اس کے دوست نے کہا کہ۔۔۔“ دوران تفتیش ایسا انکشاف کہ شیطان بھی شرما جائے
لاہور: قصور میں اغوا اور زیادتی کے بعد قتل ہونے والی سات سالہ زینب کا قاتل عمران علی گرفتارہوچکا ہے۔ اس کیس کو حل کرنے میں پولیس نے پہلے روایتی پھرتیاں بھی دکھائیں اور کچھ نام نہاد اقدامات کئے لیکن جب عوامی دباﺅ کم نہ ہوا تو جے آئی ٹی کے ذریعے ماہر تفتیش کاروں کی خدمات حاصل کی گئیں اور جدید طریقہ کار سے مدد لی گئی۔ افسوس بات یہ ہے کہ مقتولہ زینب کی فوٹیج کے علاوہ تمام دیگر فوٹیج ریکارڈ درست نہیں تھا، اسی طرح ملزم کی نشاندہی سے متعلق جاری کئے جانےو الے خاکوں کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ صرف اور صرف بڑھتے دباﺅ کو کم کرنے کے لئے ان چیزوں کا سہارا لیا گیا تاکہ یہ تاثر مل سکے کہ پولیس ملزم کے قریب پہنچ گئی ہے اور کام زور و شور سے جاری ہے ۔ اس پیچیدہ کیس کو پولیس نے کس طرح حل کیا اور دوران تفتیش کیا کیا ہوشربا انکشافات سامنے آئے، اس حوالے سے تفتیشی ٹیم کے ایک اہم رکن سے بات چیت کی گئی جن کو ایسے مقدامت کو حل کرنے میں مہارت حاصل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ریکارڈ میں موجود تین لاکھ سے زائد تصاویر کی جانچ پڑتال کی گئی، ساتھ ہزار لوگوں کا ڈیٹا حاصل کیا گیا اور اس کا تفصیلی تجزیہ بذات خود ایک امتحان سے کم نہیں تھا، اس ڈیٹا کے اپ ڈیٹ ہونے یا نہ ہونے کی مکمل تسلی کے لئے حالیہ مردم شماری کے ریکارڈ کی مدد بھی حاصل کی گئی۔ اس ڈیٹا میں 18 سے 40 سال کے افراد کے کوائف کی اگل جانچ شروع کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ مقتولہ زینب کے گھر کے اردگرد ڈھائی کلومیٹر کے علاقے میں رہائش پذیر 1200 خاندانوں کے کوائف اکٹھے کئے گئے اور ان کوائف میں ہی مجرم کی تلاش کا کام کیا گیا۔ جدید آلات والی تین کیمرہ گاڑیوں نے چودہ دن تک علاقے کی نگرانی کی اور ہر آنے جانے والے کی تصاویر اور ویڈیو کا ریکارڈ رکھا گیا تاکہ فوٹیج میں نظر آنے والے مجرم تک پہنچا جائے۔ اس تمام تحقیق اور تفتیش کے بعد 1150 لوگوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا۔ قاتل عمران کا ڈی این اے نمبر 814 تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والے جرائم کی تاریخ میں ایک کیس کی تفتیش کے لئے تعداد کے لحاظ سے یہ تیسرا بڑا ڈی این اے ٹیسٹ تھا۔ ان 1150لوگوں میں سے 20لوگوں کے پولی گرافک (جھوٹ کا پتہ چلانے والے) ٹیسٹ کئے گئے۔ ان تمام مراحل سے گزر کر مجرم تک رسائی حاصل ہوئی۔قاتل عمران کے حوالے سے سب ثبوت مکمل ہوگئے تو ڈی پی او وہاڑی ایس ایس پی عمر سعید ملک نے اپنی ٹیم کے ہمراہ عمران کے گھر چھاپہ مارااور وہاں سے وہ جیکٹ برآمد کرلی جس کے کندھوں پر روشن لگے ہوئے تھے اور وہ بٹن سی سی ٹی وی فوٹیج میں نمایاں تھے۔ جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد آئی جی پنجاب نے خصوصی طور پر ایس ایس پی عمر سعید ملک کو اس ٹیم میں شامل کیا کیونکہ انہوں نے حال ہی میں وہاڑی میں ہونے والے زیادتی اور قتل کے واقعات کو ریکارڈ مدت میں ٹریس کیا تھا۔
گرفتار ملزم سے تفتیش کے دوران تحقیقاتی ٹیم کئی بار حٰرت زدہ ہوئی کہ کیا یہ ایک انسان ہی ہے۔ درندہ صفت مجرم عمران نے تمام انکشافات پر سکون لہجے میں کئے اور اس کا چہرہ کسی بھی قسم کی شرمندگی، پریشانی یا احساس جرم سے عاری تھا۔ عمران نے پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ قبل تک اسے اپنے سے بڑی عمر کی عورتوں سے تعلق کا شوق تھا اور وہ اپنے واقعات ایک قریبی دوست سے شیئر کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اسی موضوع پر بات چیت کے دوران اس کے دوست نے اس کو ایک اور شیطانی راہ دکھائی اور کہا کہ کسی کم عمر لڑکی سے تعلقات بناﺅ، تم اپنے ماضی کے قصے بھول جاﺅ گے۔ اس کے بعد سے عمران اپنی درندگی پر اتر آیا اور اس نے کم سن لڑکیوں کو اپنا شکار بنانا شرع کردیا۔ اس تمام شیطانی کھیل میں وہ تمام حدیں پار کرگیا، ایک کے بعد ایک زیادتی اور قتل کی واردات کرتا رہا۔
اس نے بتایا کہ واردات کے وقت وہ ایک نفسیاتی کیفیت م یں چلا جاتا تھا اور دنیا کے ہر طرح کے خوف سے آزاد ہوتا تھا، اسے اغوا کے وقت کسی کی فکر نہیں ہوتی تھی۔ز یادتی کے فوراً بعد ہی اپنی عوامی مصروفیات میں مشغول ہوجاتا۔ اپنے روز مرہ کے معمولات میں وہ ایک نارمل انسان کی حیثیت سے کام کاج کیا کرتا تھا۔ جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ وہ زیادتی کے بعد قتل کیوں کرتا تھا؟ اس کے سرد لہجے میں آنے والے جواب پر تفتیشی ٹیم نے بہت مشکل سے جذبات کو قابو میں رکھا اور اپنے سرپکڑ کر بیٹھ گئی۔ شقی القلب قاتل عمران نے کہا کہ میں قتل تو نہیں کرتا تھا، زیادتی کے دوران آواز اور شور کو دبانے کے لئے بچیوں کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتا تھا اور تھوڑی دیر بعد جب میں ہاتھ ہٹاتا تو وہ مرچکی ہوتی تھیں۔