زینب کے گھر والوں کا مجرم کو سرِعام پھانسی دینے کا مطالبہ
قصور: زینب قتل کیس کے مجرم عمران کو 4 بار سزائے موت دینے پر مقتولہ کے لواحقین نے اطمینان کے اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مجرم کو سرِعام پھانسی دی جائے۔ تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت نے قصور میں زینب سے زیادتی اور قتل کا جرم ثابت ہونے پر مجرم عمران علی کو 4 بار سزائے موت سنادی ہے جس پر مقتولہ زینب کے لواحقین نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
زینب کی والدہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے اور ہم جج کے فیصلے سے متفق بھی لیکن ابھی بھی ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ یہ سزا سرِعام دی جائے اور مجرم جہاں سے ہماری بچی کو لے کر گیا تھا اسی جگہ پر اسے بھی پھانسی دی جائے۔
زینب کے چچا کا کہنا ہے کہ ہم میڈیا سے شکر گزار ہیں جنہوں نے قدم قدم پر ہمارا ساتھ دیا، ہم فیصلے سے مطمئن ہیں لیکن مجرم کو سرِعام پھانسی دی جائے تاکہ پوری دنیا دیکھے، ہمارا یہ مطالبہ اسلامی اور جائز ہے، اور اگر قانون میں ترمیم کرتے ہوئے مجرم عمران کو سرِعام پھانسی کا مطالبہ مان لیاجائے تو آئندہ کوئی بھی درندہ ایسا گناہ کرنے کا نہیں سوچے گا۔
زینب قتل کیس—کب کیا ہوا؟
واضح رہے کہ پنجاب کے ضلع قصور سے اغواء کی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش گذشتہ ماہ 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔
زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق بھی ہوئے۔
بعدازاں چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور 21 جنوری کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس میں پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دی۔
جس کے بعد 23 جنوری کو پولیس نے زینب سمیت 8 بچیوں سے زیادتی اور قتل میں ملوث ملزم عمران کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، جس کی تصدیق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی کی۔
ملزم عمران کے خلاف کوٹ لکھپت جیل میں ٹرائل ہوا، جس پر 12 فروری کو فرد جرم عائد کی گئی۔
زینب قتل کیس کے ملزم عمران کے خلاف جیل میں 4 دن تک روزانہ 9 سے 11 گھنٹے سماعت ہوئی، اس دوران 56 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے اور 36 افراد کی شہادتیں پیش کی گئیں۔
سماعت کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ، پولی گرافک ٹیسٹ اور 4 ویڈیوز بھی ثبوت کے طور پر پیش کی گئیں۔
15 فروری کو فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔