پنجاب

انتظار حسین: تہذیبِ گم گشتہ کا ’آخری داستان گو

شام ڈھل رہی ہو، تو ماحول میں سوز اور اداسی پیدا ہوجاتی ہے اور اگر اس منظرنامے میں کوئی پرانی ، شکستہ اور تاریخی عمارت بھی موجود ہو، تو پھر یہ اداسی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ میں جب لال قلعے کو دیکھتا ہوں، تو مجھ پر وہی سوز وارد ہوتا ہے، جیسے چاند کو گہن لگ جائے۔ یہ کیفیت بے آواز مگر بے قرار کر دینے والی ہوتی ہے۔‘‘

یہ افسانوی گفتگو انتظار حسین کی ہے، جو انہوں نے مجھ سے ایک مکالمے میں کی تھی۔ اب یہ طرزِ گفتگو اور اس احساس زیاں کو محسوس کرنے والے تقریباً ناپید ہیں، کیونکہ اب تو ادبی منڈی ہے اور ماہر دوکاندار، ایسے ماحول میں انتظارحسین ادب کے سچے قارئین کا اثاثہ تھے۔

انتظار حسین کی نثر، حرفِ دل کی وہ تختی تھی، جس پر کنندہ حروف بچھڑ جانے والوں کی یاد سے شرابور ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیقی تحریریں ہوں یا گفتگو کا لہجہ، ایسا لگتا تھا کہ ہم روایت اور تہذیب کے نمائندے سے بات کر رہے ہیں۔ ہم سے جو مخاطب ہے، وہ ایک ایسی تہذیب کا باسی ہے، جس کا تذکرہ صرف اب کتابوں میں ملتا ہے، مگر انتظار حسین کو سماعت کرتے ہوئے اکثر محسوس ہوتا کہ اگر داستان کوئی ’شخص‘ ہوتا، تو اس کا لہجہ ایسا ہی ہوتا۔

اس روایت کو انہوں نے سینے سے لگا کر رکھا، مشرقی علوم سے دلی لگاؤ، شخصیات سے عقیدت، زمانوں اور تہذیبوں کی سرشاری لیے وہ شخص ہم سے آج بچھڑ گیا ہے، جو تہذیبِ گم گشتہ کا ’آخری داستان گو‘ تھا۔

انہوں نے ہندوستان کی کلاسیکی فضا میں ہوش سنبھالا۔ تقسیم ہند کے موقع پر ہجرت کے تجربے سے گزرے۔ لاہور میں عارضی قیام کی خواہش ہی مستقل سکونت میں تبدیل ہوئی۔ افسانہ نگاری میں ’کرشن چندر‘ سے ابتدائی اثرات قبول کیے، تدریس میں اپنے استاد پروفیسر کرار حسین کا اثر لیا۔

زندگی کو تخلیق کی طرح بسر کرنے والے نے دوست ان کو بنایا جن کی صحبت بھی اپنی تاثیر رکھتی تھی۔ ناصر کاظمی، حنیف رامے، نیاز احمد جیسے ہنرمندوں سے گہرے مراسم ہوئے۔ کہانی کہنے کے فن پر انتظارحسین نے ملکہ حاصل کیا اور ان کے ان سب دوستوں نے بھی اپنی جداگانہ تخلیقی جہتوں میں فتح کے جھنڈے گاڑے۔

مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ انہوں نے اپنے پرکھوں کی داستان گوئی کو بازیافت کیا اور اس کے رنگوں کو پھر سے جاوداں کرنے کو سرگرم ہوئے۔ یہ جنوں ایسا متحرک ہوا کہ اپنے قلم سے کاغذ پر کہانیوں کے ذریعے منظرنامے انڈیلنے لگے۔ کہانیاں قصوں میں تبدیل ہوئیں اور ان سے نئے قصے جنم لینے لگے۔

شاید اسی لیے ان کی افسانوی کلیات کے عنوانات ’جنم کہانیاں‘ اور ’قصہ کہانیاں‘ تھے۔ فکشن لکھنے والے قلم کار کے ہاں تکنیک، حروف کا شعوری برتاؤ، کرداروں کی بنت اور پیش کاری تو ہوتی ہی ہے، مگر انتظار حسین کے ہاں معاملہ مختلف تھا۔ وہ کہانی ‘سناتے’ تھے۔ ان کی لکھی ہوئی کہانیاں پڑھنے کا تو قاری کو دھوکہ ہوتا ہے، دراصل وہ کہانی پڑھنے کے بجائے اس کہانی کے لہجے کو سن رہا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ محوِ سفر ہوتا ہے۔اسی لیے انتظار حسین نے ناول لکھے یا افسانے، ایک کے بعد ایک کہانی اس تخلیق کار کو قارئین سے قریب کرتی چلی گئی۔ یہ قربت اتنی بڑھ گئی کہ اب ان کی جدائی کا یقین نہیں ہو رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ان کرداروں میں تبدیل ہوگئے ہیں جن کو وہ لکھتے تھے اور ہم پڑھ کر اداس ہو جایا کرتے تھے۔

آج ہم اداس نہیں ساکت ہیں، مگر شاید اب کوئی نہیں جو ہمیں ویسا لکھ پائے گا جس طرح وہ بیان کرتے تھے؛ اردو ادب میں یہ تشنگی اب بہت دیر تک برقرار رہے گی۔

 انتظار حسین کے افسانوں کی کئی کلیات شائع ہوچکی ہیں جبکہ ’مجموعہ انتظار حسین‘ کے ذریعے بھی ان کے تحریروں کو یکجا کیا گیا۔ ان کی کتابوں کو سنگ میل پبلی کیشنز لاہور اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی سمیت متعدد ناشرین نے شائع کیا۔ ان کے افسانوی مجموعے جو مختلف عنوانات کے ساتھ شائع ہوئے، ان میں گلی کوچے، کنکری، آخری آدمی، شہرِ افسوس، کچھوے، خیمے سے دور، خالی پنجرہ، شہرزاد کے نام، نئی پرانی کہانیاں، سمندر اجنبی ہے، ہندوستان سے آخری خط اور جاتکا کہانیاں شامل ہیں۔

انہوں نے بچوں کے لیے بھی کہانیاں لکھیں جن کا مجموعہ ’کلیلہ دمنہ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ انتظار حسین کا آخری ناول ’سنگھاسن بتیسی‘تھا، جو 2014 میں شائع ہوا، جبکہ دیگر ناولوں میں چاند گہن، دن اور داستان، بستی، تذکرہ اور ’آگے سمندر ہے‘ شامل ہیں، جبکہ افسانوی ادب کے تراجم میں نئی پود، ناؤ، سرخ تمغہ، ہماری بستی، گھاس کے میدانوں میں، سعید کی پراسرار زندگی، شکستہ ستون پر دھوپ شامل ہیں۔

ان کے دیگر تراجم میں فلسفے کی تشکیل، ماؤزے تنگ، اسلامی ثقافت شامل ہیں۔ انہوں نے جو کتابیں مرتب کیں ان میں رتن ناتھ سرشار کی الف لیلیٰ، انشااللہ خان کی ‘دو کہانیاں’، سن ستاون میری نظر میں، پاکستانی کہانیاں، عظمت گہوارے میں، کچھ تو کہیے، سوالات و خیالات از کرار حسین شامل ہیں۔

ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ’علامتوں کا زوال‘ اور ’نظریے سے آگے‘ اشاعت پذیر ہوئے، جبکہ انہوں نے مختلف اردو اخبارات کے لیے مستقل لکھا۔ ان صحافتی تحریروں کے جو مجموعے شائع ہوئے، ان میں ذرے، ملاقاتیں، بوند بوند شامل ہیں۔

’نئے شہر پرانی بستیاں‘ اور ’زمین اور فلک اور‘ کے نام سے سفرنامے بھی قلم بند کیے۔ بچوں کے لیے ترجمہ شدہ ناول ’سارہ کی بہادری‘ تھا، جبکہ دیگر دو کہانیوں کے مجموعے ’الو اور کوا‘ اور ’کلیلہ دمنہ‘ اشاعت پذیر ہوئے۔ تذکروں اور آپ بیتی میں بھی انہوں نے اپنے قلمی فن کا بھرپور ہنر دکھایا۔ اس صنف میں دلی جو ایک شہر تھا، اجمل اعظم کے علاوہ، اپنی سوانح عمری ’چراغوں کا دھواں‘ اور ’جستجو کیا ہے؟‘ تحریر کیں، جبکہ قائد اعظم محمد علی جناح جیسی عظیم ہستی کی سوانح حیات بھی لکھی۔

راقم کو یہ شرف حاصل ہے کہ جب اس نے رضا علی عابدی کی سوانح حیات ’قلم سے آواز تک‘ لکھی تو اس کا دیباچہ انتظار حسین نے لکھا، جو میرے لیے علمی و ادبی سند کی اہمیت رکھتا ہے۔ انتظار حسین کی تخلیقات کو نہ صرف برصغیر پاک وہند میں سراہا گیا، بلکہ مغربی دنیا میں بھی ان کی ستائش کی گئی۔ان کی کئی تخلیقات کے انگریزی تراجم ہوئے جبکہ انہوں نے خود بھی انگریزی زبان میں تصنیف و تالیف کا کام کیا۔ انگریزی زبان کے مختلف اخبارات کے لیے کالم لکھے 

ان کی انگریزی تحریروں کے دیگر مجموعوں میں ’سرکل اینڈ ادر اسٹوریز، اور ‘این انریٹن ایپک’ شامل ہیں۔ برطانیہ کے ایک معروف ادبی اعزاز ’بکر پرائز‘ کے لیے انتظار حسین کو 2013 میں نامزد کیا گیا جو بذات خود ایک اعزاز ہے۔

انتظار حسین مختلف النوع تہذیبوں کے لیے متجسس تھے، لہٰذا مطالعے کی پگڈنڈی کے کنارے وہ بہت دور تک گئے۔ انہوں نے کئی نسلوں کے زیرِ سایہ علمی تربیت حاصل کی اور پھر کئی نسلوں تک اس علم کو اپنی گفتگو اور کتابوں کے ذریعے منتقل کیا۔

پاکستان اور ہندوستان کی جامعات میں ان پر تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ وہ ان چند خوش نصیب ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں جن کو ان کی زندگی میں ہی سراہا گیا۔ انتظار حسین داد و تحسین کے شور میں رخصت ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ جس ادب کے خالق تھے، اس کے لیے اداسی کو ذات سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

تاریخ کے نقوش، دیومالائی داستانوں کے کردار، ہجرت کے زخم، ماضی کی یادیں اور بے ہنگم عہد جدید میں روشن دنوں کے خواب دیکھنے والی آنکھیں اب جامد ہوگئیں، مگر ان کی تحریروں سے وہ سفر طے ضرور ہوگا جس کی منزل امن و آتشی اور حسن و فطرت پر منتج ہے۔ ہم بھی اگلی نسلوں کو کہہ سکیں گے کہ ہم نے وہ آنکھیں دیکھی ہیں جو عہد جدید کے آخری داستان گو کی تھیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close