آشیانہ ہاؤسنگ کیس: شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 10 دن کی توسیع
لاہور: احتساب عدالت نے آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں گرفتار سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 10 دن کی توسیع کرتے ہوئے 3 روزہ راہداری ریمانڈ بھی منظور کرلیا، جس کے بعد سماعت 7 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
نیب پراسکیوٹر کی جانب سے احتساب عدالت سے شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں 15 روز کی توسیع کی استدعا کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ نیب لاہور نے 5 اکتوبر کو سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں طلب کیا تھا، تاہم اُن کی پیشی پر انہیں آشیانہ اقبال ہاؤسنگ کیس میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اگلے روز انہیں احتساب عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں جج نجم الحسن نے شہباز شریف کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔ بعدازاں 16 اکتوبر کو ان کے ریمانڈ میں مزید 14 دن کی توسیع کردی گئی تھی۔
شہباز شریف کا ریمانڈ 30 اکتوبر کو ختم ہونا تھا، تاہم لاہور میں مقامی تعطیل کی وجہ سے انہیں ایک دن قبل ہی احتساب عدالت کے جج نجم الحسن کے روبرو پیش کیا گیا۔ شہباز شریف کو انتہائی سخت سیکیورٹی حصار میں احتساب عدالت لایا گیا۔
اس موقع پر لیگی رہنما اور سابق وزیر مملکت مریم اورنگزیب بھی موجود تھیں، تاہم انہیں اور دیگر کارکنوں کو احتساب عدالت کے احاطے میں جانے سے روک دیا گیا۔
احتساب عدالت کے باہر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔
اس دوران لیگی کارکنوں اور پولیس میں ہاتھا پائی بھی ہوئی اور پولیس نے لیگی کارکنوں کو پیچھے دھیکنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔
احتساب عدالت میں کارروائی
احتساب عدالت میں آشیانہ ہاؤسنگ کیس کی سماعت کے موقع پر شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ ان کے ہمراہ پیش ہوئے، جبکہ ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز بھی عدالت میں موجود تھے۔
شہباز شریف نے کمرہ عدالت میں دستاویزات کا جائزہ لیا اور اپنی صفائی میں خود دلائل دیئے۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے عدالت کے روبرو کہا کہ انہیں جھوٹے کیسز میں ملوث کیا گیا اور نیب حکام انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انہیں بلڈ کینسر ہے، لیکن ان کا چیک اپ بھی نہیں کروایا جا رہا۔
انہوں نے عدالت کے روبرو کہا، ‘میں موت کے منہ سے واپس آیا، اللہ بہت بڑا ہے اس نے مجھے صحت دی، میں نے ایک ہفتہ پہلے نیب سے درخواست کی کہ میرا خون کا ٹیسٹ کرائیں، میں نے بار بار یاددہانی کرائی، لیکن مجھے بتایا گیا کہ ہم نے اوپر بتا دیا ہے، جب حکم آئے گا تو بتادیں گے’۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ‘میری ضرورت ہے کہ میں ڈاکٹر سے مکمل چیک اپ کراتا رہوں’۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے مزید کہا کہ انہیں فیملی سے ملاقات بھی نہیں کرنے دی جا رہی۔
ان کا کہنا تھا، ‘دشمن ملک بھارت کے ایجنٹ کلبھوشن کو فیملی سے ملاقات کی اجازت ملی، لیکن مجھے فیملی سے ہفتہ وار ملاقات بھی کرنے نہیں دی جارہی، اتنی بندش تو مارشل لاء میں بھی نہیں ہوتی’۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ‘مجھے اللہ نے پوتا عطا کیا ہے، جس پر میں شکرگزار ہوں’۔
اس موقع پر نیب کے وکیل نے اعتراض کیا، جس پر شہباز شریف نے کہا کہ ‘میں انسان ہوں، ایک پاکستانی ہوں، لوگوں کواپنی رائےبیان کرنے دیں’۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب کا مزید کہنا تھا کہ ‘اللہ تعالیٰ کی عدالت سب سے بڑی ہے، میں نے صوبے کی خدمت کی ہے اگر یہ جرم ہے تو میں کرتا رہوں گا’۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ‘میرے حقوق ہیں جو مجھے نہیں دیئے جارہے، میرے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، لیکن یہ وقت انشاء اللہ گزر جائےگا’۔
دوران سماعت شہباز شریف نے جج کے سامنے ایک شعر کا مصرع ‘یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں’ بھی پڑھا۔
اس موقع پر نیب وکیل نے اعتراض کیا کہ ‘شہباز شریف اپنے خلاف الزامات کا خود عدالت میں جواب دے رہے ہیں’۔
تاہم نیب وکیل کے بار بار بولنے پر احتساب عدالت کے جج نے شہباز شریف کو ہدایت کی کہ ‘آپ کھل کر بات کریں’۔
شہباز شریف نے کہا، ‘میں نے کامران کیانی کا راز قومی اسمبلی میں کھول دیا، میں عدالت میں ثبوت کے ساتھ بات کروں گا’۔
شہباز شریف نے عدالت میں پہلی نیلامی کے لیے ہونے والی میٹنگ کے منٹس بھی عدالت میں پیش کردیئے اور کہا کہ ‘دسمبر 2013 سے اکتوبر 2014 تک کی کارروائی ہے اور میں 27فروی 2014 کے منٹس پڑھ کر سنا رہا ہوں’۔
ان کا کہنا تھا، ‘پچھلی مرتبہ بھی کہا تھا کہ میں نے پہلی بڈنگ کینسل نہیں کی، دسمبر 2014 میں دوبارہ بڈنگ ہوئی جو پی ایل ڈی سی نے کی، میں نےکامران کیانی کا ٹھیکہ کینسل کیا، 50 بڈز آئیں میں نے سپورٹ کیا اور علاؤالدین کی تعریف کی’۔
شہباز شریف نے کہا کہ ‘پچھلے ریمانڈ میں بھی نیب نے دوسری بڈنگ کی بات کی تھی، پھر انہوں نے ڈنڈی ماری اور عدالت کو غلط بتایا’۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے پنجاب پبلک پارٹنرشپ کی دستاویزات بھی عدالت میں پیش کردی اور کہا کہ ‘میں نے 25 دن میں صاف پانی اور آشیانہ اسکیم میں سب الزامات کلئیر کردیئے’۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ‘شہباز شریف غلط بات کررہے ہیں، وہ 2 مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب رہ چکے ہیں’۔
تاہم شہباز شریف نے کہا کہ ‘یہ غلط بات کر رہے ہیں، میں تین مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب رہ چکا ہوں’۔
نیب پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ ‘شہباز شریف کو جواب دینے کی بجائے سوال کرنے کی عادت ہے’۔
دوران سماعت ایک خاتون وکیل شہباز شریف کے حق میں بول پڑیں۔
جس پر جج نے ریمارکس دیئے کہ ‘ہمیں پتہ ہےآپ بھی یہاں موجودہیں’، جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں 15 روز کی توسیع کرنے کی استدعا کی۔
وکیل نیب نے مزید استدعا کی کہ شہباز شریف کے قومی اسمبلی اجلاس کے سلسلے میں پروڈکشن آرڈر جاری ہوچکے ہیں، لہذا عدالت شہباز شریف کا راہداری ریمانڈ بھی منظور کرے۔
تاہم شہباز شریف کے وکیل نے جسمانی ریمانڈ سے متعلق نیب کی درخواست کی مخالفت کردی۔
وکیل اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ‘جسمانی ریمانڈ میں توسیع نہیں ہونی چاہیے’۔
جس کے بعد احتساب عدالت نے جسمانی ریمانڈ میں توسیع سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا اور کچھ دیر بعد فیصلہ سناتے ہوئے شہباز شریف کو مزید 10 روز کے جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں دے دیا۔
دوسری جانب عدالت نے شہباز شریف کا 3 روزہ راہداری ریمانڈ بھی منظور کرتے ہوئے سماعت 7 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی۔
سماعت کے بعد شہباز شریف کو سفید رنگ کی گاڑی میں احتساب عدالت سے نیب آفس منتقل کردیا گیا۔
شہباز شریف کے وکلاء کے سیکیورٹی انتظامات پر تحفظات
دوران سماعت شہباز شریف کے وکلاء اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز نے احتساب عدالت کے باہر سیکیورٹی انتظامات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
وکلاء کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت کے باہر کرفیو لگا دیا گیا اور ہمیں تک اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل اور شہباز شریف پر عائد الزامات
نیب آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم، صاف پانی کیس، اور اربوں روپے کے گھپلوں کی تحقیقات کر رہا ہے، جس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت دیگر نامزد ہیں۔
آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی اور سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد پہلے ہی گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
نیب ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ شہباز شریف کو لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے سابق ڈی جی فواد حسن فواد کے بیان کے بعد گرفتار کیا گیا۔
اس سے پہلے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کیس کی آخری پیشی پر شہباز شریف اور فواد حسن فواد کو آمنے سامنے بٹھایا گیا۔ نیب ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اس موقع پر فواد حسن فواد نے کہا تھا کہ ‘میاں صاحب آپ نے جیسے کہا میں ویسے کرتا رہا’۔
نیب کے مطابق شہباز شریف پر الزام ہے کہ انھوں نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب آشیانہ اسکیم کے لیے لطیف اینڈ کمپنی کا ٹھیکہ غیر قانونی طور پر منسوخ کروا کے پیراگون کی پراکسی کمپنی ‘کاسا’ کو دلوا دیا۔
نیب کا الزام ہے کہ شہباز شریف نے پی ایل ڈی سی پر دباؤ ڈال کر آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کا تعمیراتی ٹھیکہ ایل ڈی اے کو دلوایا اور پھر یہی ٹھیکہ پی ایل ڈی سی کو واپس دلایا جس سے قومی خزانے کو 71 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔
نیب ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے پی ایل ڈی سی پر دباؤ ڈال کر کنسلٹنسی کانٹریکٹ ایم ایس انجینئر کسلٹنسی کو 19کروڑ 20 لاکھ روپے میں دیا جبکہ نیسپاک کا تخمینہ 3 کروڑ روپے تھا۔
تاہم شہباز شریف نیب کی جانب سے لگائے گئے ان تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرچکے ہیں۔