علماء کی ذمہ داری ہے اُمت کو فرقہ واریت سے نکالیں، مولانا طارق جمیل
لاہور: نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کے رہنما مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ اللہ کے رسول (ص) نے ایک بار اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ میں تمیں بتاؤں کہ اللہ اور اس کے رسول (ص) سے محبت کرنیوالا کون ہے؟ اور پھر فرمایا کہ جسے یہ پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (ص) کا وہ پیارا بن جائے اور وہ بھی اللہ اور اس کے رسول (ص) سے پیار کرنیوالا بن جائے تو وہ زندگی میں جب بھی بولے ہمیشہ سچ بولے، جب بھی کوئی معاملہ کرے تو امانت داری سے کرے، دھوکہ نہ کرے اور جہاں رہتا ہے وہاں پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرے، یہی آج کے دن کا پیغام محبت ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج پورے ملک میں سچائی نہیں ہے، امانت اور دیانتداری نہیں ہے، یہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے ہیں، ہم اللہ کے محبوب (ص) کی صرف اس ایک حدیث کو زندہ کر دیں تو ہماری زندگی کی رونقیں لوٹ آئیں، محبتیں بھی لوٹ آئیں اور اللہ اور اس کے رسول (ص) کے بھی پیارے بن جائیں۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی کی ابتدا اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے، ہماری شریعت ہمیں براہ راست مخاطب کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا اللہ اپنے نبی (ص) سے فرماتا ہے کہ آپ(ص) ان سے کہئے کہ سب سے پہلا مسلمان میں ہوں، میں تمیں اللہ کی مان کر دکھاؤں گا، پھر تم اس کے مطابق کرو، یہ بات اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے کہ معاشرے کے تمام مرد و خواتین اور چھوٹے بڑے اپنے آپ کو صرف ان 3 باتوں پر ہی لے آئیں، تبدیلی کیلئے بہت بڑی محنت کی ضرورت ہے، ہر آدمی کو اپنی ذات سے اور دوسرا والدین اپنی گود میں بچوں کو سچ بولنا، دیانت داری اور محبت سکھائیں، دوسرا ہمارے تعلیمی ادارے دینی ہوں یا دنیاوی، وہ یہ درس دیں، تیسرا آپس میں ایک دوسرے کو اس بات کیلئے تیار کیا جائے، علماء منبر سے اور یونیورسٹیز، کالجز اور سکول اپنے لیکچرز سے طلبا کو سکھائیں، پھر تبدیلی کی کوئی شکل بن سکتی ہے ورنہ یہ کوئی ’’چھو منتر‘‘ تو ہے نہیں کہ ایک دم سے تبدیلی آ جائے اور نہ ہی کسی کو زبردستی ڈنڈے کے زور پر سچ کے راستے پر لایا جا سکتا ہے۔
مولانا طارق جمیل نے کہا کہ نبی کریم (ص) کی زندگی سے بڑی روادری کس نے سکھائی ہے؟ پہلی ہستی جس نے دنیا میں جنگ کے قوانین، قوائد اور اصول بنائے، وہ آپ (ص) تھے، جس لشکر کو بھی آپ (ص) روانہ فرماتے تھے، آپ (ص) کی طرف سے واضح ہدایات ہوتی تھیں کہ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہیں کرنا، کسی کی عبادت گاہوں کو نہیں گرانا، عیسائی عبادتگاہوں کے راہبوں کو قتل نہیں کرنا، فصلوں کو نہیں روندنا، درخت نہیں کاٹنا اور نہ ہی انہیں آگ لگانا، یہ سارے جنگی اصول تو میرے نبی کریم (ص) نے دیئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی ذمہ داری والدین کی ہے، ان کی گود سے یہ ذمہ داری شروع ہوتی ہے پھر اہل علم اور علماء فرقہ واریت کی باتیں چھوڑ کر اس چیز کو اجاگر کریں، حکومت اپنے لیول پر اور لوگ اپنے لیول پر یہ کام کریں تو پھر کوئی بات بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ امت کو فرقہ واریت سے نکالیں اور اللہ کے فضل سے ہر مکتبہ فکر میں ایسے صلح پسند لوگ ہیں لیکن ہر مکتبہ فکر کے خطیب حضرات اتنے جوشیلے ہیں کہ وہ دوسروں کو کافر ٹھہرانا ہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، اللہ ان کو سمجھ دے تاکہ وہ پیغام محبت کو عام کریں۔