تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی سمیت مرکزی قیادت و کارکناں گرفتار
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ خادم حسین رضوی کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حراست میں لے لیا۔
خادم حسین رضوی کے اہلخانہ نے ڈان نیوز کو ٹی ایل پی سربراہ کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق کی۔
خادم حسین رضوی کے اہل خانہ کے ایک رکن نے نجی نیوز چینل ‘سما’ کو بتایا کہ ‘انہیں لاہور میں ان کے حجرے سے گرفتار کیا گیا۔’
ٹی ایل پی سربراہ کے صاحبزادے نے سعد نے ‘سیوَن نیوز’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کے علاوہ تنظیم کے تمام ضلعی سربراہان کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔
بعد ازاں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ‘خادم حسین رضوی کو حفاظتی تحویل میں لے کر مہمان خانے منتقل کیا گیا گیا ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ‘اس کارروائی کی ضرورت تحریک لبیک کے 25 نومبر کی احتجاجی کال واپس نہ لینے کی وجہ سے پیش آئی، کیونکہ عوام کی جان و مال اور املاک کی حفاظت حکومت کا اولین فرض ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘تحریک لبیک مسلسل عوام کی جان و مال کے لیے خطرہ بن گئی ہے اور مذہب کی آڑ لے کر سیاست کر رہی ہے، تاہم موجودہ کارروائی کا آسیہ بی بی کے مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔’
پنجاب کے وزیر اطلاعات اور قانون نے رابطہ کرنے پر کہا کہ انہیں خادم حسین رضوی کی گرفتاری سے متعلق کچھ علم نہیں۔
دوسری جانب پولیس ذرائع کے مطابق ملک کے مختلف شہروں میں تحریک لبیک کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔
تحریک لبیک پاکستان کے سرپرست اعلیٰ پیر افضل قادری نے تصدیق کی کہ ان کے رہنماؤں کو مساجد میں چھاپے مار کر گرفتار کر رہی ہے۔
ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ اسلام آباد کے مختلف علاقوں سے پارٹی کے 30 کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
دارالحکومت میں فیض آباد کے مقام پر بھی پولیس کے تقریباً 100 اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا ہے۔
راولپنڈی سے ٹی ایل پی کے 59 رہنماؤں اور کارکنان کو حراست میں لیا گیا جبکہ دیگر کارکنان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے تحریک لبیک کے ڈویژنل صدر سید عنایت الحق شاہ کو نظر بند کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
نظر بندی کے نوٹی فکیشن کے مطابق سید عنایت الحق شاہ کو 15 روز کے لیے جیل میں نظر بند کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ خادم حسین رضوی کی گرفتاری کی اطلاعات، سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ ماہ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے الزام سے بری کرنے کے فیصلے کے خلاف تحریک لبیک کے ملک بھر میں تین روز تک جاری احتجاج کے چند ہفتے بعد سامنے آئی ہیں۔
مذہبی و سیاسی جماعت نے وفاقی اور پنجاب حکومت سے معاہدے کے بعد یہ احتجاجی دھرنا ختم کیا تھا، جس کے تحت حکومت نے آسیہ بی بی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کے لیے قانونی کارروائی اور فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل پر معترض نہ ہونے کی حامی بھری تھی۔