میرا امتحان شروع ہو چکا، جس کا نتیجہ میری ریٹائرمنٹ پر نکلے گا: چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اپنے دورمیں ملک میں ترقی لانے کی بھرپورکوشش کی،قوم کی خدمت کیلئے 3 گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتا،میراہرمقصدنیک نیتی سے بھرپوررہا۔
سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ لوگوں کے مسائل کی وجہ سے میں جدوجہدکر رہاہوں،پیشہ ورانہ زندگی میں خلوص نیت سے ذمے داری نبھانااصل خدمت ہے،اپنی پوری زندگی میں انصاف کے حصول کےلئے کام کیا۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثارنے کہا کہ میری زندگی کا مقصد ہمیشہ اپنے پیشے سے مخلص رہنا ہے ، میرا امتحان شروع ہو چکا ہے ، اس کا نتیجہ میری ریٹائرمنٹ پرنکلے گا ،بلوچستان گیا تو پتاچلا سب سے بڑے ہسپتال میں آئی سی یو نہیں تھا،انہوں نے کہا کہ 2 ہزارپیرامیڈیکس کچھ روزسے ہڑتال پرتھے، مجھے مشورہ دیاگیا بلوچستان نہ جائیں پیرامیڈیکس ہڑتال پرہیں،میں بلوچستان گیااورپیرامیڈیکس کاایک ایک جائزمطالبہ پوراکیا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ مجھے ملک کے ہرکالج اور ہرہسپتال کےساتھ محبت ہے ،میری محبت یکطرفہ نہیں، دوطرفہ ہے ،پنجاب،سندھ، بلوچستان، کے پی کے ہرعلاقے میں موجود تعلیمی ادارے، ہسپتالوں سے مجھے محبت ہے ،میرامشن تھاکہ صحت کے شعبے میں بہتری لانے کیلئے اقدامات کروں،پرائیویٹ کالجزمیں ڈاکٹرزپیدانہیں کئے جارہے،پرائیویٹ کالجزسے پڑھ کرآنے والے ڈاکٹرزبلڈپریشرچیک نہیں کرسکتے،انہوںنے کہا کہ پرائیویٹ کالجزمیں فیس کی مدمیں کروڑوں روپے لئے جارہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میری والدہ نے مجھے اور میرے بھائی کو انسانیت کی خدمت کی نصیحت کی ،والدہ نے دعا کی اے اللہ جوتکلیفیں تھیں تونے مجھے دےدیں،میری اولادکومحفوظ رکھنا،چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہناتھا کہ جوشخص کسی عذاب سے گزرتا ہے اسے دوسرے کی تکلیفوں کا احساس ہوتا ہے۔
انہوںنے کہا کہ کئی کئی کروڑروپے لے کر ہسپتالوں کا الحاق کیا گیا ،ہسپتالوں کو چلانا میرا یا عدالتوں کا کام نہیں تھا لیکن وہاں پرغلطیاں ہورہی تھیں،پرائیوٹ کالجزکے طالبعلموں سے لی جانےوالی 35 لاکھ روپے تک کی فیس واپس دلائی ،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اللہ نے مجھ پر بہت بڑی ذمے داری ڈالی ،ہیلتھ کیئر سسٹم میں سب سے اہم کردار ڈاکٹر کا ہے ،نجی ہسپتال تعلیم گاہیں نہیں ،بزنس سینٹربن چکے ہیں ، چیف جسٹس ثاقب نثارنے کہا کہ عدلیہ نے کسی ہسپتال کی مینجمنٹ میں مداخلت نہیں کی ،جہاں غلطیاں تھیں انہیں ٹھیک کرنے کے اقدامات کئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ملک کاہرفردایک لاکھ 25 ہزارکامقروض ہے،پنجاب کے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرکامسئلہ دیکھناکیاحدودسے تجاوزہے؟، ڈاکٹرحضرات کوچاہئے کہ اپنے حلف کی صحیح پاسداری کریں،انہوںنے کہا کہ کسی بھی قوم یامعاشرے کی ترقی وخوشحالی کیلئے تعلیم بنیادی درجہ رکھتی ہے۔میں نے ایمانداری کو ہمیشہ نصب العین سمجھا۔
انہوںنے کہا کہ کسی بھی قوم یامعاشرے کی ترقی وخوشحالی کیلئے تعلیم بنیادی درجہ رکھتی ہے،آبادی بڑھ رہی ہے،وسائل کم ہوتے جارہے ہیں،سندھ اور پنجاب کے ہیلتھ سسٹم میں بہتری آئی ہے،صحت کے شعبے میں کے پی میں جوکرناچاہ رہاتھا، نہیں کرسکا،انہوںنے کہا کہ ہسپتالوں کے سربراہ اچھے لگائے اس لیے بہتری ہوئی،جوپانی پینے کے قابل نہیں اسے بھی نچوڑاجارہاہے،تعلیم کاجوحال ہے وہ سب جانتے ہیں،پاکستان میں ذہنی امراض سے متعلق سہولتیں تسلی بخش نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیاپانی کی قلت کے معاملے پربات کرناغلط ہے؟،کیاصاف پانی کے مسئلے پرازخودنوٹس لینامیرے دائرہ اختیارمیں نہیں آتا؟انہوںنے کہا کہ بچوں کی ری ہیبلی ٹیشن کیلئے لاہورمیں 100 بستروں کاہسپتال ہوناچاہئے،ہسپتال کومینٹل ری ہیبلی ٹیشن سینٹر سے منسلک کیاجائے۔انہوںنے کہا کہ پانی سے لےکرادویات کی حد تک ہمیں کوشش کرناہوگی کہ بہتری لائیں،اساتذہ کی تذلیل کبھی نہیں ہونے دیں گے۔