پنجاب

اردو زبان کے قادرالکلام شاعرمحسن نقوی کی آج 23وین برسی منائی جارہی ہے

آج اردو زبان کے قادرالکلام شاعرمحسن نقوی کی برسی ہے۔ محسن نقوی غزل گواورسلام گو شاعر ہیں آپ کے کلام میں انسانی رویوں کے رنگ بہت خوبصورتی سے جھلکتے ہیں۔

محسن نقوی پانچ مئی 1947 کو پیدا ہوئے ان کاتعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا۔ان کا مکمل نام سید غلام عباس نقوی تھا شعر کہنے کے لئے محسن تلفظ کرتے تھے لہذا بحیثیت شاعر ’محسن نقوی‘کے نام سے مشہور ہوئے۔

انہوں نے بچپن سے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی طرف بھی بے حد توجہ دی، مسجد کے ساتھ گھر میں قرآن مجید اور ناظرہ کی طرف توجہ دیتے اور مذہبی کتابیں ذوو شوق سے پڑھتے تھے۔

محسن نقوی بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے اردو میں ایم اے کیا، اور کم وبیش اسی زمانے میں ان کی شاعری کا بھی آغاز ہوا۔

بعد ازاں تعلیم کو خیرباد کہہ کر ذاتی کاروبار کی طرف راغب ہوگئے اورانیس سوسڑسٹھ میں اپنی چچا زاد سے شادی کرلی، محسن نقوی اپنے 6 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، انہوں نے اپنی پہلی غزل میٹرک کے دوران کہی۔

محسن نقوی گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خاں کے مجلہ ” الغازی” کے مدیر اور کالج کی یونین کے نائب صدر تھے، جب انہوں نے ” فکر جدید” نمبر شائع کیا تو ادبی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا اور پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں محسن نقوی کا نام پہنچ گیا اور کالج میں بھی ان کے ادبی قد کاٹھ میں بے حد اضافہ ہوگیا۔

کالج کے تمام پروفیسر محسن نقوی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے، سب ہی ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے معترف تھے ان دنوں ان کا ایک قطعہ بے حد پذیرائی حاصل کرنے لگا۔

چاندنی کارگر نہیں ہوتی
تیرگی مختصر نہیں ہوتی
ان کی زلفیں اگر بکھر جائیں
احتراماً سحر نہیں ہوتی

انیس سو انہتر میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے باقاعدہ کارکن کی حیثیت سے پی ایس ایف میں شمولیت اختیار کر کے سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اس حوالے سے انہوں نے کئی نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔

انہوں نے پاکستان کی سابقہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے لیے ایک نظم ” یااللہ یارسول ، بے نظیر بے قصور” لکھی۔ 1994ء میں انہیں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ) سے نوازا گیا تھا۔

محسن نقوی کا پہلا شعری مجموعہ بند قبا 1970ء میں دوستوں کے مالی تعاون سے منظرعام پر آیا جس میں انہوں نے 1965 ء سے 1970 ء تک کی شاعری شائع کی اور اس مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہی محسن نقوی کا نام اردو ادب میں ہمیشہ کے لیے زندہ وجاوید ہوگیا۔

اگر نہ صبر مسلسل کی انتہا کرتے
کہاں سے عزم پیغمبر کی ابتدا کرتے؟
نبی ﷺکے دیں کو تمنا تھی سرفرازی کی
حسین سرنہ کٹاتے تو اور کیا کرتے؟

ان کے شعری مجموعات میں بندِ قبا، ردائے خواب، برگِ صحرا، موجِ ادراک، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، فراتِ فکر، خیمہ جاں اور میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی شامل ہیں۔

محسن طلوعِ اشک دلیلِ سحر بھی ہے
شب کٹ گئی ، چراغ بجھا دینا چاہیے

پندرہ جنوری 1996 کی ایک شام اس نامور شاعر محسن نقوی کو فرقہ وارانہ دہشت گردوں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا کر کے ہمیں ایسا کرب دیا جو کبھی بھی کم نہ ہوسکے گا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close