لاہور: جمعیت علما پاکستان کے مرکزی صدر اور متحدہ مجلس عمل کے نائب صدر پیر اعجاز احمد ہاشمی نے کہا ہے کہ 1973ء کا آئین قومی یکجہتی اور ملی ہم آہنگی کا آئینہ دار ہے، کھلواڑ کی بجائے تمام ادارے اس کا احترام کریں، ختم نبوت پر ایمان رکھنے والا مسلمان ہے، تکفیری گروہوں کی سرپرستی اور نئی جماعتوں کی غیر فطری تشکیل سے قوم مزید انتشار کا شکار ہوئی۔ تمام مکاتب فکر کی مذہبی قیادت اسلامی نظام پر متفق ہے تو اس کے نفاذ میں رکاوٹ کیوں؟ پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ اور ملی ہم آہنگی کیساتھ ہم نے من حیث القوم بہت زیادتی کی اور اس کی اہمیت بھول گئے۔ اسی وجہ سے اب تک ہم اپنی قومی سمت کا تعین بھی نہیں کر سکے۔ قائد اعظم نظریہ پاکستان، اسلامی نظام کے نفاذ اور وفاقی پارلیمانی نظام کی مضبوطی چاہتے تھے۔ مگر ایوب خان نے صدارتی نظام قائم کرکے وفاقی پارلیمانی نظام کو شدید نقصان پہنچایا۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معاشرے کو انتشار کا شکار کرنے والے سیاستدان، مذہبی قیادت اور ریاستی ادارے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ فوج نے ہمیشہ اپنی سیاسی نرسریاں تیار کیں۔ ایوب خان نے پرانے سیاستدانوں پر پابندی کیلئے ایبڈو کا قانون بنانے کیساتھ کنونشن لیگ بنوائی جبکہ ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کو توڑا اور محمد خان جونیجو کی قیادت میں مسلم لیگ تیار کی، پھر جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹس تیار کیں۔ تاکہ وہ اپنا ایجنڈا پورا کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تکفیری نعرے اور مخالف فرقے کے قتل کے فتوے، لشکر اور سپاہ کے نام سے نجی عسکری ونگ ضیا الحق کی مارشل کی پیداوار ہیں۔ پیر اعجاز ہاشمی نے زور دیا کہ سیاستدان، مذہبی طبقہ اور ریاستی ادارے مل بیٹھ کر ایک قومی راستے کا تعین کرلیں، تاکہ ملکی ترقی اور ملی ہم آہنگی کیلئے روڈ میپ مل سکے، ورنہ قومی انحطاط کا شکار ہی رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف حکومت کو کمزور کرنے کیلئے بھی مذہبی طبقے اور دینی جذبات کو ابھارا گیا۔ ان کا کہنا تھاکہ طالع آزماوں کی توڑنے کیلئے پسندیدہ جماعتیں مسلم لیگ اور جمعیت علما پاکستان رہی ہیں، ہماری جماعت کو کمزور کرنے کیلئے نئے نئے گروہ پیدا کئے گئے۔ تمام مکاتب فکر کی موثر مذہی جماعتوں نے اتحاد کرتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم تشکیل دئیے مگر جمعیت علما پاکستان، تحریک جعفریہ، جمعیت اہلحدیث، اور جمعیت علما اسلام سب کو تقسیم کرکے نئے گروہ پیدا کئے گئے۔ جے یو پی کے سربراہ نے تجویز دی کہ ہر 10۔ سال بعد نئی سیاسی اور دو سال بعد مذہبی جماعت متعارف کروانے کی بجائے میثاق امن و ترقی کیلئے پارلیمنٹ، اسٹیبلشمنٹ اور علما کو مل بیٹھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت اور اٹھارہویں آئینی ترمیم نے وفاق اور صوبوں کے اختیارات کا تعین کیا مگر تبدیلی کا نعرہ لگا کر برسر اقتدار آنیوالی حکومت دوبارہ پاکستان کو وفاق کی مرکزیت پر لانے کیلئے پر تول رہی ہے، وہ ایوب خان اور پرویز مشرف کے آمرانہ صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں۔