ریکارڈ میں تبدیلی ہوئی تو سب اندر جائیں گے
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردارشمیم احمد خان کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے ساہیوال واقعے کی جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف اور جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے متفرق درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران جے آئی ٹی کے سربراہ ڈی آئی جی اعجاز شاہ پیش ہوئے۔ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے دلائل پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے وکیل کو باور کرایا کہ جوڈیشل کمیشن تشکیل دینا حکومت کا کام ہے اور وہی مجاز فورم ہے۔ عدالت یہ کمیشن تشکیل نہیں دے سکتی۔
وکیل بیرسٹر احتشام نے نشاندہی کی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا جس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے وکیل کو باور کرایا کہ اب قانون تبدیل ہوچکا ہے، اب قانون مختلف ہے۔
عدالت نے جے آئی ٹی کے سربراہ سے استفسار کیا کہ آپ فائل لے کر آئے ہیں جس پر سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ فائل تفتیشی افسر کے پاس ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ یہ معاملہ انتہائی اہم ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے عدالتی احکامات پر ساہیوال واقعہ کی تحقیقات کی رپورٹ پیش نہ کرنے پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور قرار دیا کہ عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنا عجیب سے بات ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن بنانے کے حوالے سے ہمیں کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی جی پنجاب عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے، عدالتی آرڈر میں واضح لکھا ہے کہ آئی جی پنجاب ذاتی حیثیت میں پیش ہوں، عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل جے آئی ٹی رپورٹ اور پولیس کی تفتیشی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ تمام دستیاب ثبوت اکٹھے کرلیے ہیں، صرف مدعی تعاون نہیں کررہے ہیں۔
عدالت نے استفسارکیا کہ ریکارڈ کے مطابق کیا ثبوت اکٹھے ہیں، جس پرسرکاری وکیل نے کہا کہ عینی شاہدین کے بیانات، جائے وقوعہ سے اشیاء، گولیوں کے خول سے متعلق تمام تر فوٹیج حاصل کی ہے اور واقعہ میں ملوث اہلکاروں کی شناخت ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس نے جے آئی ٹی سربراہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے یہ چیک کیا کہ کون ایسے آپریشن کی ہدایت دیتا ہے، کوئی نہ کوئی توافسرہوگا جس نے آپریشن کیلیے احکامات دیے، کیا ہدایت دینے والے افسرکا نام ایف آئی آرمیں درج کیا گیا ہے۔
وکیل شہباز بخاری نے کہا کہ صرف ان کو گرفتارکیا گیا ہے جو آپریشن میں براہ راست ملوث تھے، آپریشن کی اجازت دینے والے کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا ملزموں کی فائرنگ سے کوئی مضروب ہوا، میرا سوال وہی ہے کہ کس افسر نے انہیں آپریشن کی ہدایت کی، جس پرسرکاری وکیل نے کہا کہ ایس پی جواد قمرنے آپریشن کا حکم دیا اسے معطل کردیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سرکاری ریکارڈ مجھے چاہیے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ اصل شخص کون ہے، جب بھی کوئی آپریشن ہوتا ہے توسرکاری ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے، اگرریکارڈ میں تبدیلی ہوئی تو سب اندر جائیں گے۔ درخواست پر مزید کارروائی 7 فروری کو ہوگی۔