عاصمہ جہانگیر کے انتقال کی صورت میں پہنچنے والا نقصان ایک برس بعد بھی کم نہ ہو سکا
لاہور: عاصمہ جہانگیر کے انتقال کی صورت میں پہنچنے والا نقصان ایک برس بعد بھی کم نہیں ہو سکا۔ تاہم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی)کے لیے، جس کی انہوں نے 1987 میں اپنے چند دیگرساتھیوں کے ساتھ بنیاد رکھی، یہ خسارہ ان کے ورثے کو آگے لے جانے کے لیے ایک نئے عزم کا باعث ثابت ہوا ہے۔ جاری ہونے والے ایک بیان میں ایچ آرسی پی نے کہا کہ، پاکستان میں انسانی حقوق کی تحریک کو اجتماعی ضمیرکی جتنی آج ضرورت ہے اتنی پہلے کبھی بھی نہیں رہی۔
درحقیقت، اگرعاصمہ آج ہمارے ساتھ ہوتیں تو وہ اجتماع کی آزادی، نقل وحرکت کی آزادی اوراظہارکی آزادی پرپابندیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا سلسہ جاری رکھتیں۔ وہ غیرمحفوظ اورکمزور عورتوں، بچوں، کسانوں و مزدوروں، جبری مزدوروں، مذہبی و لسانی اقلیتوں، اورخواجہ سراء کمیونٹی کا دفاع کرتیں، اور انتخابی بدنظمی اورغیرضروری عدالتی فعالیت کو ہدف تنقید بناتیں، مگرجمہوریت اورآزاد عدلیہ کی ضرورت کا دفاع کرتیں۔ اس طرح وہ ان تمام لوگوں کے لیے بولتیں جو بنیادی حقوق اورآزادیوں کی حتمی حیثیت پریقین رکھتے ہیں۔
گزشتہ برس کے دوران، ایچ آرسی پی نے محترمہ جہانگیرکے چھوڑے گئے خلا کے باوجود اس کام کو جاری و ساری رکھا ہے۔ ان کے نقوش اس ادارے پرآج بھی موجود ہیں جس کی وہ شریک بانی تھیں اورانسانی حقوق کے کئی کارکنوں پربھی جن کی انہوں نے تربیت کی۔ ایچ آرسی پی کی گورننگ باڈی اورملک بھرمیں کمیشن کا سٹاف عاصمہ جہانگیرکے مشن پرکاربند ہے اوران کے جذبے اورہمت کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔ جس طرح انہوں نے خود ایک بارکہا تھا، ”انسانی حقوق ایک کام نہیں بلکہ طرززندگی ہے۔ ایچ آرسی پی کے لیے یہ بات اب بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔