رانا ثناء اللہ کے چہیتے پولیس افسران کو بھی شکنجے میں لانے کا فیصلہ
لاہور: مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناء اﷲ کی منشیات برآمدگی پر گرفتاری کے بعد اینٹی نارکوٹکس فورس اور حساس ادارے نے تفتیش کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے انکے چہیتے پولیس افسروں کو شکنجہ میں لانے کیلئے انکے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مقامی اخبار کی رپورٹ کے مطابق باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ رانا ثنا کی جانب سے کن کن پولیس افسروں کو خصوصی دلچسپی لیکر تعینات کیا جاتا رہا؟ کون کون سے پولیس افسر رانا ثناءاللہ کی گڈ بک میں تھے؟ اور انکو کن کن علاقوں میں تعینات کیا جاتا تھا۔
ان علاقوں میں منشیات فروشوں کے کتنے اڈے تھے؟وہاں پر کون کون سے قبضہ گروپ تھے جن کو رانا ثناء اللہ کی سفارش پر سپورٹ کیا جاتا تھا؟ باقاعدہ ایسے پولیس افسروں کی فہرستیں تیار کی جا رہی ہیں، خاص کر فیصل آباد، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جڑانوالہ میں تعینات ہونیوالے پولیس افسروں کے حوالے سے کام شروع ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میری گرفتاری ظلم ہے اور ظلم کی حکومت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی، رانا ثناءاللہ
ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس کے 5 اعلیٰ افسروں کی تعیناتی میں سب سے زیادہ رانا ثناءاللہ دلچسپی لیتا تھا، ان میں دو افسر رانا ثناءاللہ کے قریبی رشتہ دار ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، انکی پروفائل بھی چیک کی جا رہی ہے۔
ان چہیتے اعلیٰ پولیس افسروں کے پاس باقاعدہ ان منشیات فروشوں، قبضہ مافیا اور اجرتی قاتلوں کے کوائف موجود ہیں، یہ گھناؤنے کاموں کے باوجود قانون کی گرفت سے بچے رہے کیونکہ ان کو رانا ثنا اور پولیس کی مبینہ سپورٹ حاصل تھی۔
رپورٹ کے مطابق ان چہیتے افسروں کے علاوہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بھی کن پولیس افسروں کو رانا ثناءاللہ کی مبینہ سپورٹ حاصل تھی کے حوالے سے بھی خفیہ خصوصی انویسٹی گیشن کی جا رہی ہے۔
جن پولیس افسروں کے ذریعے مبینہ جعلی پولیس مقابلے کرائے اور حکم نہ ماننے والے باغی منشیات فروشو ں کیخلاف جھوٹے مقدمات درج کروا کر زبردستی اپنے تابع کرایا گیا ان میں ایس ایس پی سے انسپکٹر عہدہ کے پولیس افسروں کو گرفتار کیا جائیگا اور ان کیخلاف قانونی اور محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔
انسداد منشیات فورس نے تمام اداروں کو خطوط ارسال کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ کے گھروں، اراضی و دیگر جائیدادوں، بینک اکائونٹس اور مختلف کمپنیوں کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا ہے تاکہ علم ہو سکے کہ کہیں یہ اثاثہ جات منشیات کے پیسہ سے تو نہیں بنائے گئے۔