پنجاب

سیہون میں سیکیورٹی وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اہم ملکی امور پر مشاورت کے لیے میڈیا تنظیموں کے نمائندوں کو بلایا ہے۔ اجلاس میں دہشت گردی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر بات ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری اولین ترجیج ہے کہ مایوسی، خوف اور تشویش کو نزدیک نہ آنے دیا جائے۔ عوام کو متحرک اور پر عزم بنایا جائے۔ اے پی ایس واقعہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا جس پر آج بھی عمل در آمد ہو رہا ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کا بلیک آؤٹ کرنا چاہیئے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ساڑھے 3 سال میں سیکیورٹی میں بہتری آئی ہے۔ جون 2013 میں دھماکوں کی اوسط روزانہ 6 سے 7 تھی۔ 10 سال میں پہلی بار دھماکوں کی تعداد ایک ہزار سے نیچے آئی تھی۔

چوہدری نثار کے مطابق گزشتہ سال کے دوران 700 کے قریب دھماکے ہوئے۔ 400 کے قریب دھماکوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومتوں کو بتایا گیا کہ دہشت گردی کا واقعہ ہوگا، جیل پر حملوں سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا، گیٹ تک بتا دیا پھر بھی کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ دہشت گردی کا گراف نیچے آیا ہے مگر یہ ختم نہیں ہوا ہے۔ عملی اقدامات سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ ہمیں تیار رہنا چاہیئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیہون دھماکے کے بعد صوبائی حکومت کے ترجمان نے واقعے پر بات نہیں کی۔ صوبائی حکومت کا ترجمان وفاق پر تنقید کے نشتر برسا رہا تھا۔

وفاقی وزیر نے سندھ حکومت سے سوال کیا کہ کیا سیہون شریف کی سیکیورٹی وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی؟ انہوں کہا کہ مزار پر اس قدر انتظامی غفلت تھی کہ واک تھرو گیٹ نہیں تھے، سیکیورٹی نہیں تھی، بجلی نہیں تھی، کیا یہ سب فراہم کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی؟

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ہم نے چیف سیکریٹری سندھ سے رابطہ کیا اور کچھ سوال اٹھائے تاہم چیف سیکریٹری کے پاس سیکیورٹی سے متعلق کوئی جواب نہیں تھا۔ صرف اتنا بتایا کہ ہم نے زخمیوں کو اس طرح اسپتالوں تک پہنچایا تھا، اس کے سوا وہ کسی اور سوال کا جواب نہ دے سکے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close