انسانیت کے سب سے بڑے خدمتگار عبدالستار ایدھی کی پہلی برسی
کراچی: لاوارثوں کے وارث اور مشہور سماجی کارکن عبد الستار ایدھی کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک سال بیت گیا۔ پہلی برسی پر بڑی تعداد میں ان کے چاہنے والے مدفون جگہ ایدھی ویلیج پہنچے اور ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ جن کو گودوں میں کھلایا آج وہی ننھے ہاتھوں سے دعاگو ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے زیر کفالت بچے ان کے مشن کو آگے لے کر چلنے کے لیے پرعزم ہیں۔ بابائے خدمت کی پہلی برسی پر ان کے خاندان اور چاہنے والے تو بڑی تعداد میں پہنچے لیکن سیاسی یا حکومتی شخصیت مین سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ ایدھی فاونڈیشن کی بنیاد اس وقت ڈالی گئی جب 1973ء میں شہر کی ایک پرانی رہائشی عمارت زمین بوس ہوئی تو ایدھی ایمبولینسیں اور ان کے رضا کار مدد کے لئے سب سے پہلے پہنچے۔ اس دن کے بعد سے آج تک ملک بھر میں کوئی بھی حادثہ ہو ایدھی ایمبولینسیں کام آتی ہیں بلکہ لاوارث لاشوں کو دفنانے کا کام بھی سرانجام دیا جاتا ہے۔
اپنی سوانح حیات اے میرر ٹو دی بلائنڈ میں ایدھی صاحب نے لکھا ہے کہ معاشرے کی خدمت میری صلاحیت تھی، جسے مجھے سامنے لانا تھا۔ ایدھی اور ان کی ٹیم نے میٹرنٹی وارڈز، مردہ خانے، یتیم خانے، شیلٹر ہومز اور اولڈ ہومز بھی بنائے، جس کا مقصد معاشرے کے غریب و بے سہارا لوگوں کی مدد کرنا تھا۔اس ادارے کا نمایاں شعبہ اس کی 1500 ایمبولینسیں ہیں جو ملک میں دہشت گردی کے حملوں کے دوران بھی غیر معمولی طریقے سے اپنا کام کرتی نظر آتی ہیں۔ 2000ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں ایدھی فانڈیشن کا نام بحیثیتِ دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس درج کیا گیا۔ عبدالستارایدھی کو کئی مرتبہ نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا اور رواں سال بھی فہرست میں شامل تھے۔ ان کی شاندار خدمات پر حکومت پاکستان کی جانب سے 1989ء میں نشان امتیاز سے نوازا گیا۔