’وزیراعلیٰ سندھ پولیس کو بچائیں‘
کراچی: انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سندھ اللہ ڈنو (اے ڈی) خواجہ کی جانب سے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو خط لکھ کر کہا گیا ہے کہ وہ محکمے میں ہونے والے حالیہ تبادلوں و تقرریوں پر مداخلت کرکے پولیس کے نظام کو بچائیں۔ ڈان کو موصول ہونے والی آئی جی سندھ کی جانب سے وزیراعلیٰ کو لکھے گئے خط کی کاپی میں اے ڈی خواجہ نے مراد علی شاہ سے حال ہی میں 5 ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جیز) کی تقرریوں اور تبادلوں کا ذکر کیا۔
اے ڈی خواجہ کی جانب سے خط میں وزیر اعلیٰ سندھ کو گزارش کرتے ہوئے لکھا گیا کہ اعلیٰ پولیس افسران کے تبادلے سے نہ صرف آئی جی آفیس متاثر ہوا، بلکہ اس سے پولیس سسٹم بھی بیٹھ گیا۔ خیال رہے کہ حال ہی میں کراچی پولیس سربراہ سمیت 4 آئی جیز کی تقرریاں و تبادلے کیے گئے۔
آئی جی سندھ نے ان تقرریوں اور تبادلوں کو سندھ اپیکس کمیٹی کے آخری اجلاس میں طے پانے والے فیصلوں کی خلاف ورزی قرار دیا جس میں طے کیا گیا تھا کہ ماتحت افسروں پر مکمل کمانڈ اور اختیار کا حق پولیس سربراہ کے پاس ہونا چاہئیے۔
اے ڈی خواجہ کے مطابق یہاں تک 1861 پولیس ایکٹ کے تحت بھی ماتحت افسروں پر ان کا اختیار ہے، مگر حالیہ تقرریاں و تبادلے کیے جانے پر ان سے مشورہ تک نہیں کیا گیا۔ اے ڈی خواجہ کے مطابق حالیہ آرڈرز وزارت داخلہ، محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کیے گئے، جن کے ذریعے ماتحت افسران پر آئی جی کے کنٹرول کو کم کردیا گیا، اور انہیں کھلی چھوٹ دے دی گئی۔
خط میں لکھا گیا کہ سی پی او کے تحت خدمات سر انجام دینے والے متعدد افسران کو وزارت داخلہ کی جانب سے بلایا گیا، اور ان پر غیر ضروری دباؤ ڈالا گیا، یہ عمل ماتحت اداروں پر کمانڈ اینڈ کنٹرول کا خاتمہ ہے۔
خط کے مطابق تقرریوں و تبادلوں کے وقت سینیئر افسران کا فرق کیے بغیر ان کا تقرر کیا گیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اہم عہدوں پر تعینات افسران کو سینٹرل پولیس آفیس (سی پی او) میں تعینات کیا گیا،جن میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آپریشن اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل فنانس شامل ہیں، ان تمام افسران کا تعلق آئی جی پی سے ہے، جن کا بلاجواز تبادلہ کیا گیا۔
انہوں نے خط میں مزید لکھا کہ اہم کیسز سے جڑے افسران کو مناسب مدت پوری کیے بغیر ہٹایا گیا، جب کہ ادارے کو ان کی اشد ضرورت تھی۔
آئی جی سندھ نے خط میں دعویٰ کیا کہ ان کے دفتر کی جانب سے بعض افسران کے خلاف انضباطی کارروائیوں کی سفارشات کو بھی مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے، جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئیے۔ انہوں نے خط میں خبردار کیا کہ ایسے عمل سے صوبے میں امن و امان اور قانونی کی حکمرانی کی صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔