خواجہ سراؤں نے شریعت کورٹ کے تحت ٹرانسجینڈر ایکٹ کے فیصلے کو مسترد کردیا
شریعت کورٹ کا فیصلہ دباؤ میں لیا گیا جس سے خواجہ سراؤں کو صدمہ پہنچا ہے
کراچی: خواجہ سرا کمیونٹی نے شریعت کورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ جانے کا اعلان کردیا
خواجہ سراؤں کے ایک گروپ نے شریعت کورٹ کے تحت ٹرانسجینڈر ایکٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوے شریعت کورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ جانے کا اعلان کردیا۔
ٹرانسجینڈر کمیونٹی کی رہنما بندیا رانا، شہزادی رائے، مہرب معیز اعوان، سرخ حنا اور وکیل سارہ ملکانی سمیت دیگر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شریعت کورٹ کا فیصلہ دباؤ میں لیا گیا ہے جس سے خواجہ سراؤں کو صدمہ پہنچا ہے، اس فیصلہ کے تحت دو مسائل پیدا کیے گئے ہیں جن میں خود کے جنس کا تعین اور جائیداد کے مسائل شامل ہیں، انڈیا میں مودی اور پاکستان میں سراج الحق جیسے لوگ شر پھیلانا چاہتے ہیں۔
بندیا رانا نے شریعت کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سرا برادری شریعت کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتی ہے، ہماری قدیم تاذیخ ہے، ان ججوں سے سوال پوچھتی ہوں کہ کیا پانچ رکنی میڈیکل بورڈ سے گزر کر کوئی شناختی کارڈ بنا سکتا ہے؟، ترقی یافتہ خواجہ سراؤں سے ان افراد کو خوف آتا ہے۔
بندیا رانا نے کہا قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی سمیت سینیٹ میں ہمیں نشستیں نہیں ملیں، اسپتال میں ہمارے لیے علیحدہ کھڑکی بھی نہیں بنائی گئی، اگر شناخت کے لیئے میڈیکل بورڈ بنے ہیں تو سب کے لیے اصول مساوی ہوں، کتنی طلاقیں ہوجاتی ہیں کہ لڑکا نامرد ہے لیکن ان کیسز میں کسی نے میڈیکل بورڈ نہیں بنائے، ریزرو نشستوں کے لیئے یہ خواجہ سراؤں کی تلاش کررہی ہیں، جب عمرے کے دوران اللہ کے گھر جیسی مقدس جگہ پر سب کے لیئے کوئی علیحدہ اصول نہیں تو یہاں کیوں؟۔
ڈاکٹر مہرب معیز اعوان نے کہا کہ شریعت کورٹ نے کہا کہ خود کو ٹرانسجنڈر تسلیم کرنا ایک بیماری ہے، اس میں انہوں نے کہا کہ اگر خود کو خواجہ سرا تسلیم کرنے والے خود کو کتا یا بلی جیسے جانوروں سے تشبیح دیں گے تو کیا اس کو ٹرانس اسپیشیز(trans-species) کہا جائے گا، شریعت کورٹ نے کہا کہ اگر مرد میں مردانہ تولیدی صلاحیت موجود ہے تو وہ مرد ہے، عورت میں اگر زنانہ تولیدی صلاحیت ہے تو وہ عورت ہے، اس کا کیا مطلب ہوا؟، مطلب اگر کوئی عورت یا مرد بانجھ ہے تو ان کا شمار بھی خواجہ سرا میں کیا جائے گا؟۔
ڈاکٹر مہرب معیز اعوان نے کہا کہ جو مرد اور عورت تولیدی صلاحیت سے قاصر ہیں، ان کے شناختی کارڈ پر خواجہ سرا درج کردیا جائے گا؟، کیا پھر ان متاثرہ عورتوں اور مردوں کو بھی میڈیکل بورڈ کے معائنے عمل سے گزارا جائے گا؟۔ یہ جماعت اسلامی کی کوئی بھول نہیں، یہ اس جماعت کا بین الاقوامی ایجنڈا ہے، یہ دائیں بازو کی سازشیں ہیں، انڈیا میں مودی اور پاکستان میں سراج الحق جیسے لوگ شر پھیلانا چاہتے ہیں، اس میں سائنس اور خواجہ سراؤں کی بھی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔
حنا بلوچ نے کہا کہ ماضی میں عزت کے ساتھ ساتھ ہمیں نوکریاں بھی دی گئی، خواجہ سرا کمیونٹی کا صوفی کلچر میں بہت بڑا حصہ ہے، ہمیں شریعت کورٹ کے فیصلے پر بہت افسوس ہے، کیا یہ فیصلہ کرتے وقت تمام مکاتب فکر کو اعتماد میں لیا تھا؟،آپ کو یہ فیصلہ کرتے وقت ایران کا کاہی نظام دیکھ لینا چاہیے تھا۔
وکیل سارہ ملکانی نے کہا کہ میں مذمت کرتی ہوں کہ ہمارے بیانات کو نظر انداز کردیا گیا،ججمنٹ میں ایشوز ہیں،وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلہ کے لیئے 60 دن کا وقت دیا جاتا ہے،تاکہ وہ اپیل سپریم کورٹ میں فائل کی جائے،خراجہ سراؤں کو معذوری(disabled) کا لیبل دیدیا ہے، یہ کمیونٹی ڈس ایبل نہیں ہے، ان کی تاریخ قدیم ہے۔
خواجہ سراؤں نے شکوہ کیا کہ ریاست کا حق نہیں ہماری جنس کا تعین کرے، یہ فیصلہ عورتوں اور خواجہ سراؤں کے خلاف ہے، ہم نے کم عمری کی شادی اور جنسی زیادتیوں کے خلاف جدوجہد کی، اسلام و شریعت خواجہ سراؤں کے خلاف نہیں بس کچھ افراد ہیں جو عوام کو غلط اسباق سیکھا رہے ہیں، خواجہ سراؤں کے بے دردی سے قتل کردیئے گئے، پولیس تھانے میں بیٹھ کر اپنے جرم کو قبول کرتے ہیں اور اس کو اپنے بیان میں جہاد کا نام دیدیا جاتا ہے، ہمارے پاس وہ ریکارڈنگ بھی ہے۔