میری برہنہ تصاویر میرے بوائے فرینڈ نے انٹرنیٹ پر لیک کردیں لیکن اسکے بعد مجھے سب سے بڑا جھٹکا یہ لگا کہ
کراچی:یہ تو سچ ہے کہ آج کے دور میں ہم کسی پر بھی آنکھیں بند کرکے اعتماد نہیں کرسکتے، لیکن اگر کوئی اعتماد میں دھوکہ کھا بیٹھے تو الٹا اسے ہی قصور وار قرار دے دینا بھی تو مناسب نہیں۔ ہاں مگر ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے ایسا ہی ہوتا ہے۔ چوبیس سالہ پاکستانی لڑکی حبہ فہیم نے کو بھی اس تلخ حقیقت کا اس وقت سامنا کرنا پڑ گیا جب بدقسمتی سے ان کی کچھ قابل اعتراض تصاویر آن لائن لیک ہوگئیں۔
ویب سائٹ مینگو باز کی رپورٹ کے مطابق اس لڑکی نے اپنے ساتھ پیش آنے والے دردناک واقعے کا احوال بیان کرتے ہوئے بتایا، ’’جب کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو بہت سی باتیں آپ کے ذہن میں آتی ہیں۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ مجھ سے کیا غلطی ہوئی؟میں نے اس پر اعتماد کیوں کیا؟ اور یہ بات ہمیشہ ذہن پر سوار رہتی ہے کہ اب کیا ہوگا؟ کتنے لوگوں کو پتہ چل گیا ہوگا؟ اور لوگوں کا سامنا کس طرح کرنا ہوگا؟ سب سے خوفناک سوچ جو ذہن میں بار بار آتی ہے وہ یہی ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ میرے ساتھ یہ ہوا تو میں نے سب سے پہلے ہی خود کو ہی لعن طعن کی، کہ میں نے اس لڑکے پر اعتماد کیوں کیا، لیکن پھر جلد ہی یہ بات ثانوی حیثیت اختیار کرگئی کیونکہ مجھے فوری طور پر نقصان کو کنٹرول کرنے کیلئے کچھ کرنا تھا۔
دریں اثناء وہ شخص جس نے میری تصاویر لیک کیں، جو کہ میرا سابق دوست تھا، اس بات کو ماننے کو بھی تیار نہیں تھا۔ میری سہیلیوں، عزیز و اقارب اور جاننے والوں نے میرے ساتھ بات چیت بند کردی۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا نام میرے نام کے ساتھ آئے۔ میرے لئے یہ ایک اور دکھ تھا کہ وہ شخص جس نے میرے ساتھ یہ ظلم کیا تھا اسے کسی بھی الزام کا سامنا نہیں تھا۔ اس کے دوستوں اور عزیز و اقارب کو اس سے نفرت نہیں تھی اور وہ اپنی زندگی پہلے کی طرح ہی گزاررہا تھا۔ میں نے غلط شخص پر اعتماد کیا، میں اسے مانتی ہوں۔
لیکن جس شخص نے میری تصاویر لیک کیں، کیا اس نے کوئی جرم نہیں کیا؟لوگوں نے مجھے فاحشہ اور نجانے کیا کچھ کہا، اس واقعے نے میری زندگی برباد کردی، میں اب کسی پر اعتماد نہیں کرسکتی اور میرے خاندان کو مجھ پر اعتماد نہیں رہا، میرے لئے سب کچھ بدل کررہ گیا ہے۔ میں اپنی غلطی کو تسلیم کرتی ہوں، لیکن میری زندگی بر باد کرنے والے کی کوئی غلطی نہیں ہے؟ کیا یہ ہمارے معاشرے کی منافقت نہیں ہے؟‘‘