کراچی: عوامی احتجاج کہیں فسادات میں تبدیل نہ ہو جائے ہمیں اس بات کا خدشہ ہے۔
کنوینرمتحدہ قومی موومٹ پاکستان ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ جس رفتار کے ساتھ بجلی کے بل بڑھ رہے ہیں ایسا لگتا ہے ایک بڑا بحران ہمارا منتظر ہے، کراچی میں صورتحال زیادہ گمھیر نظر آرہی ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ عوامی احتجاج کہیں فسادات میں تبدیل نہ ہو جائے ہمیں اس بات کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا ہے اور اب تک کر رہے ہیں، کراچی کو واپڈا کے دائرہ ذمہ داری سے دور اور باہر رکھا گیا ہے، ہم پہلے بھی اس حوالے سے تجاویز ایوانوں میں اور حکمرانوں کو پیش کرتے رہے ہیں، شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات اٹھانا نگران حکومت کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ نگران وزیر اعظم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کے حل کے لیے اقدامات اٹھائیں، ان کا کہنا تھا کہ حیدرآباد میں 12،12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔
کراچی اور حیدرآباد کے تاجروں نے احتجاج کی کال دی ہے، اگر اس معاملے پر کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئےاور بجلی کی قیمتوں میں کمی نہیں ہوئی تو عوامی مفاد میں ہم احتجاج کا حصہ بننے پر مجبور ہوں گے۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان میں معاشی بحران سے زیادہ نیت کا بحران ہے، یہ حالات جو بجلی کے بلوں سے ابھر رہے ہیں اس نے کراچی کی سڑکوں پر جرائم کی پرورش کرنا شروع کر دی ہے۔
انہوں نے انتخابات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایم کیو ایم فوری انتخابات کی خواہشمند ہے، پچھلے انتخابات میں کراچی کے عوام پر جعلی نمائندگی مسلط کی گئی، ہمارا جس طرح 2018 میں حق چھینا گیا تھا کسی کا نہیں چھینا گیا تھا، سب سے جلدی انتخابات کی ضرورت اس شہر کو ہے۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ صاف شفاف اور غیر جانبدار انتخابات ہونے چاہیئں، کون سے لوگ ہیں جو نئی مردم شماری کے بعد پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات کروانے پر زور دے رہے ہیں ، نئی مردم شماری کے بعد کوئی آئین اور قانون اجازت نہیں دیتا کہ نئی ووٹر لسٹوں کے بغیر انتخابات ہوں، ہم جلد سے جلد انتخابات چاہتے ہیں الیکشن کمیشن نے کہا تھا نئی حلقہ بندیوں کے لیے 90 دن کا وقت درکار ہے۔
اس موقع پر سینئر ڈپٹی کنوینر ایم کیو ایم ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ملک تیزی سے انارکی کی جانب جا رہا ہے، بجلی کے بل نچلے طبقوں کی پہنچ سے آگے نکل گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کے بل اب ادا نہیں ہوں گے، لوگوں میں بغاوت کا رجحان آ رہا ہے ، اگر یہی حالات رہے تو پھر اس ریاست کے اندر کئی ریاستیں بنیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے سامنے یہ صورتحال رکھی جائے، آئی ایم ایف اسی طرح ڈکٹیشن دیتا رہا تو ہم بہت نقصان اٹھائیں گے، کوئی ایک سیاسی جماعت کراچی کے مسائل کو حل نہیں کر سکتی، اس کے لیے ہم سب کو مل جل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔